سعودی شاہ سلیمان بن عبدالعزیز کل کتنی مالیت کے اثاثوں کے مالک ہیں ؟ دنگ کر ڈالنے والی تفصیلات سامنے آ گئیں

سعودی شاہی خاندان کے بارے میں معلومات مہیا کرنے والی ایک ویب سائٹ نے انکشاف کیا ہے کہ سعودی شاہی خاندان کے پاس کئی دہائیوں سے خام تیل کی آمدنی سے سرمایہ کاری کے نتیجے میں اثاثوں کی مالیت 14 کھرب ڈالرز (2 ہزار کھرب پاکستانی روپے سے زائد) ہے ۔

سعودی شاہی خاندان میں 15 ہزار کے قریب افراد موجود ہیں مگر بیشتر دولت کے مالک ان میں سے 2 ہزار افراد ہیں۔ سعودی فرمانروا شاہ سلمان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ20کھرب روپے سے زائد کے مالک ہیں۔دوسری جانب خبر کے مطابق سعودی عرب کے حکومت نواز اخبار عرب نیوز نے اپنے ایک اداریے میں امریکا سے ایران پر سرجیکل حملے شروع کر دینے کا مطالبہ کیا ہے اورلکھا ہے کہ ایران پر پابندیوں کے واضح نتائج ابھی تک سامنے نہیں آئے، اس لیے حملے ضروری ہیں۔سعودی اخبار کی رپورٹ کے مطابق سعودی عرب کو ایرانی دھمکیوں کے تناظر میں ایسے حملے ضروری ہو گئے ہیں۔ اخبار نے ان حملوں کو موجودہ کشیدہ صورت حال میں منطقی قدم قرار دیا۔ اخبار کے مطابق امریکا نے شام کی کیمیائی ہتھیار سازی کی تنصیبات کو نشانہ بنا کر پہلے ہی مثال قائم کر دی تھی۔ اداریے میں

کہا گیا کہ ایران پر پابندیوں کے واضح نتائج ابھی تک سامنے نہیں آئے، اس لیے حملے ضروری ہیں۔ سعودی اخبار سعودی حکومت کے ریسرچ اور مارکیٹنگ گروپ کا حصہ ہے۔ دریں اثناء امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ ایران کے ساتھ کسی ممکنہ جنگ کے خطرے کا کوئی امکان نہیں۔ غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ امریکا ایران کے ساتھ جنگ کے راستے پر نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکی ایرانی جنگ کا کوئی امکان نہیں ہے اورنہ ہی اس کی امید ہے۔ امریکی صدر نے اس بات کی بھی تردید کی کہ اْن کا کوئی مشیر

انہیں جنگ شروع کرنے کے مشورے دے رہا ہے۔ مشیر سے خاص طور پر مراد جان بولٹن تھی۔علاوہ ازیں ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف اپنے ایشیائی دورے کی اگلی منزل چین پہنچ گئے۔ غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق وہ بیجنگ میں اپنے چینی ہم منصب کے ساتھ مشرق وسطیٰ میں پیدا کشیدگی اور تناؤ پر گفتگو کریں گے۔ غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق چین روانگی سے قبل جاپانی دارالحکومت ٹوکیو میں جواد ظریف نے کہا کہ ابھی تک جوہری ڈیل کو بچانے کے لیے بین الاقوامی برادری نے صرف بیانات دیے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اب اس ڈیل کو بچانے کے لیے عملی اقدامات ضروری ہو گئے ہیں۔ ایرانی وزیر خارجہ چین پہنچنے سے قبل جاپان اور بھارت کے دورے مکمل کر چکے ہیں۔

Source

Leave A Reply

Your email address will not be published.