نجات ممکن ہے مگر۔۔۔ – علی معین نوازش

ali-moeen-nawazish

بعض ماہرِ نفسیات کا کہنا ہے کہ کسی بھی شے کو اپنی عادت بنانے یا کسی خاص صورتحال کا عادی ہونے کے لئے انسان کو کم از کم 28دِن درکار ہوتے ہیں۔ ہماری زندگی یکسر تبدیل ہو کر رہ گئی ہے، ماسک کا استعمال، ہاتھ نہ ملانا، سماجی فاصلے کا خیال رکھنا اور کورونا کے حوالے سے دیگر احتیاطی تدابیر کسی نہ کسی حد تک ہماری زندگی کا حصہ بن گئی ہیں کیونکہ اِس معمول کیساتھ رہتے ہوئے ہمیں 28دِن تو کیا 450دِنوں سے بھی زیادہ ہو گئے ہیں۔

2021میں ابھی تک ہمیں کوئی اچھی خبر ملی ہے تو وہ یہ کہ جن جن ممالک میں کورونا کے خلاف ویکسی نیشن کا عمل بڑھتا جا رہا ہے، اُن ممالک میں اُسی نسبت سے کورونا کے کیسوں میں واضح کمی واقع ہو رہی ہے۔ برطانیہ اِس حوالے سے ایک بڑی مثال ہے۔ دوسری طرف اور اچھی خبریں یہ بھی ہیں کہ تقریباً تمام ویکسینز شدید بیماری اور اموات میں واضح کمی لا رہی ہیں اور ساتھ ہی ساتھ کووڈ 19کی جو مختلف اقسام، جیسا کہ برطانیہ کا ویرینٹ یا بھارت کا ڈبل ویرینٹ سامنے آئی ہیں، ویکسینز اُن کے خلاف بھی ہمیں محفوظ کر رہی ہیں۔ ایک اچھی خبر یہ بھی ہے کہ ہمیں دوسرے ممالک میں یہ بھی نظر آ رہا ہے کہ ایک مخصوص تعداد میں لوگوں کو ویکسین لگنے کے بعد وہاں زندگی معمول کی طرف واپس لوٹ رہی ہے۔ ماسک بھی اُتارے جا رہے ہیں، تعلیم کا سلسلہ بھی بحال ہو رہا ہے اور بازاروں میں بھی پرانی آمد ورفت اور رونق بحال ہو رہی ہے۔

کورونا وائرس سے نجات ممکن ہے مگر یہ نجات ویکسین کے ذریعے ہی ممکن ہے ۔اِن اچھی خبروں میں ویکسین کے حوالے سے بری نہیں تو چند تشویشناک خبریں بھی سامنے آئی ہیں۔ ویکسین کی دستیابی اور تمام لوگوں کا اِس کو لگوانا، دو بڑے مسائل ہیں۔ اِن مسائل کا سامنا صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ دیگر ممالک کو بھی ہے۔ جہاں امیر ممالک کے پاس ویکسین کی کمی نہیں ، وہاں ویکسین نہ لگوانے والوں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے۔ ویکسین نہ لگوانے میں افواہوں اور جھوٹ پر مبنی معلومات ،لوگوں کا کورونا کو سنجیدگی سے نہ لینا اور ویکسین لگوانے کے بعد سامنے آنے والے سائیڈ افیکٹس کی وجہ سے پیدا ہونے والی جھجھک اہم وجوہات ہیں۔دنیا بھر میں اِس وقت کورونا ویکسین کی ایک ارب سے زائد خوراکیں لگ چکی ہیں جن میں 87 فیصد امیر ممالک کے باشندوں کو لگی ہیں جبکہ غریب ترین ممالک کے صرف 0.2فیصد لوگوں کو لگ سکی ہیں۔

پاکستان میں اِس وقت تک ویکسین کی 50لاکھ سے زیادہ خوراکیں لگ چکی ہیں مگر22کروڑ عوام میں سے صرف12لاکھ افراد نے ویکسین کا کورس پورا کیا ہے۔ پہلے یہ سمجھا جا رہا تھا کہ صرف 18سال سے زائد عمر کےافراد کو کورونا سے بچائو کی ویکسین لگے گی لیکن اب یہ واضح ہو چکا ہے کہ 2 سال سے زائد عمر کے ہر فرد کو یہ ویکسین لگوانی پڑے گی۔ کچھ ممالک میں 12سے18 سال تک کے بچوں کو ویکسین لگانے کا عمل شروع بھی ہو چکا ہے اور ستمبر تک 2 سال سے زائد عمر کےبچوں کو ویکسین لگانا شروع کر دی جائے گی۔ اِس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پہلے یہ سمجھا جا رہا تھا کہ وائرس کو کنٹرول کرنے کے لئے اگر ایک ملک کی 60 سے 70 فیصد آبادی کو ویکسین لگ جائے گی تو یہ کافی ہو گا مگر نئے اور تیزی سے پھیلنے والے ویرینٹ سامنے آنے کے بعد یہ شرح90 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ اگر وائرس کو مکمل طور پر ختم کرنا ہے تو 90فیصد آبادی کی مکمل طور پر ویکسی نیشن ضروری ہو گئی ہے اِس لئے اب کم عمر افراد کو بھی ویکسین لگانے پر زور دیا جا رہا ہے۔

پاکستان کو اِس حوالے سے دو منفرد چیلنجوں کا سامنا ہے۔ پہلا یہ کہ بعض حکومتی وزراء کے بیانات کے مطابق حکومت کا پہلے ٹارگٹ یہ تھا کہ 18 سال سے زائدکے عمر افراد میں سے 60سے70 فیصد کو ویکسین لگائی جائے گی لیکن اب 2 سال سے زائد عمر کےہر فرد کو ویکسین لگوانی پڑے گی، اِس لئےویکسین کی دستیابی کے حوالے سے تاخیر کا سامنا ہو سکتا ہے۔ اب یہ ہماری حکومت پر منحصر ہے کہ وہ کتنی جلدی ویکسین کی مطلوبہ تعداد ملک میں فراہم کر سکتی ہے۔ اِس حوالے سے جس قدر تاخیر ہوگی اُس قدر زیادہ جانی و مالی نقصان کا اندیشہ ہے اور پرانے معمول کی طرف جانے کے لئے اور زیادہ وقت درکار ہو گا۔ دوسرا چیلنج یہ ہے کہ کیا ہر فرد ویکسین لگوائے گا بھی یا نہیں؟ پاکستان اُن دو ممالک میں شامل ہے جہاں ابھی تک پولیو کا وائرس موجود ہے۔ اِس کی بڑی وجہ لوگوں کا اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے نہ پلانا ہے۔ کورونا وائرس کی ویکسین کے حوالے سے بھی ایسا ہی ردِ عمل

سامنے آیا ہے۔ اکثر لوگ یہ ویکسین لگوانے کے خواہاں نہیں ۔یہ چیلنج اُن ترقی یافتہ ممالک میں بھی در پیش ہے جہاں ویکسین کے حوالے سے افواہیں اور غلط معلومات گردش کر رہی ہیں ، جیسا کہ امریکہ۔ امریکہ میں ویکسین کی دستیابی کا کوئی مسئلہ نہیں لیکن وہاں ویکسی نیشن کا ریٹ تیزی سے نیچے گِر رہا ہے، اِس چیلنج سے نمٹنے کے لئے کوششیں تاحال جاری ہیں۔ امریکہ کی کچھ ریاستوں نے تو ویکسین لگوانے پر لاکھوں ڈالر کی لاٹری کا انعام بھی رکھ دیا ہے۔

نجات صرف ویکسین سے ہی ملے گی، کچھ لوگوں کا جو خیال ہے کہ جیسے جیسے کورونا ختم ہوتا جائے گا ، وہ محفوظ ہو جائیں گے، بالکل غلط ہے۔ نہ صرف کورونا کی نئی اقسام سامنے آ رہی ہیں بلکہ اُن لوگوں کو بھی کورونا ہو رہاہے جو ایک بار اِس وبا سے شفا یاب ہو چکے ہیں۔ ایک شخص میں جو امیون ریسپانس بنتا ہے وہ بیماری سے اُس قدر مستحکم نہیں ہوتا جتنا ویکسین سے ہوتا ہے۔اِس لئے ویکسین آپ کو بیماری سے صحت یاب ہونے سے بہتر حفاظت فراہم کرتی ہے۔بیماری سے اگر حفاظت ملتی بھی ہے تو اُس کا دورانیہ اُتنا زیادہ نہیں ہوتا جتنا ویکسین لگوانے کی صورت میں ہوتا ہے۔ میں خود دو بار کورونا وائرس کا شکار ہو چکا ہوں۔ہماری حکومت اور بحیثیت قوم ہم اِس بیماری کے حوالے سے اب جو رویہ اپنائیں گے وہی ہمیں یا تو اِس سے مکمل طور پر نجات دلائے گا یا پولیو کی طرح دنیا بھر سے ختم ہو جانے والی بیماری صرف پاکستان میں باقی رہے گی جس کے بعد پاکستان کا شمار ایک اور فہرست میں ہو گا جو کورونا وائرس سے متاثرہ ممالک کی فہرستہوگی اوریہ امرہمارے لئے بحیثیت قوم انتہائی شرمناک ہو گا۔

Must Read Urdu column Nijaat Mumkin hai Magar By Ali Moeen Nawazish
Source: Jang

Leave A Reply

Your email address will not be published.