’’’’پیسے تو میں بچا ہی لیتی ہوں‘‘ – حسن نثار

hassan-nisar

کسی بھی ملک میں لینڈ کرتے ہی اس کی اوقات کھل کھلا کر سامنے آ جاتی ہے۔ ایئر پورٹ کا کلچر، ماحول اور مقامی لوگوں کا مینرازم پورے ملک کا خلاصہ ہوتا ہے اور اگر بوجوہ ایسا نہ ہو تو پھر ایئرپورٹ سے نکلتے ہی مقامی لوگوں کے حال حلیے، حرکتیں، چہرے، چال چلن، نشست و برخاست، ڈسپلن کا معیار سب کچھ آشکار کر دیتا ہے۔

وہ جو کہتے ہیں ناں کہ گھر کے بھاگ ڈیوڑھی سے ہی پہچانے جاتے ہیں یا دیگ کے چند دانے چکھنے سے ہی پوری دیگ کا ذائقہ معلوم ہو جاتا ہے، سو فیصد سچ ہے۔

رہی سہی کسر اس وقت پوری ہو جاتی ہے جب آپ ایئرپورٹ سے اپنی منزل کی طرف روانہ ہوتے ہیں۔ یہ سب تو ’’ذاتی تجربہ‘‘ کی بات ہے ورنہ جب سے دنیا سکڑتے سکڑتے گلوبل ویلیج میں تبدیل ہوئی ہے، آپ چاہیں تو گھر بیٹھے بھی پرائے گھر میں جھانک سکتے ہیں مثلاً یہ جاننا قطعاً مشکل نہیں کہ کس ملک کے پاسپورٹ کی کیا حیثیت ہے؟ شرح خواندگی کا کیا حال ہے؟ کرائم ریٹ کدھر جا رہا ہے؟ پورن سائٹس وہاں کتنی مقبول ہیں؟ ملکی معیشت کہاں کھڑی ہے؟ وغیرہ وغیرہ وغیرہ لیکن ملک و قوم کو جاننے، سمجھنے، پہچاننے، پرکھنے کا ایک دلچسپ طریقہ یہ بھی ہے کہ ان کے ٹی وی کمرشلز، اشتہارات وغیرہ کو تیسری آنکھ سے دیکھیں۔

کسی بھی شے کا اشتہار دراصل بنیادی طور پر اس معاشرہ کی اجتماعی نفسیات کا عکاس ہوتا ہے بشرطیکہ آپ ’’سطور‘‘ پر ’’بین السطور‘‘ کو ترجیح دیتے ہوں۔

ہمارے خالصتاً اپنے ذاتی اشتہار کبھی کبھی انٹرٹینمنٹ کے شہکار ہوتے ہیں جیسے آج کل ایک اشتہار کی ہائی لائٹ یہ جملہ ہے کہ ’’پیسے تو میں بچا ہی لیتی ہوں‘‘ حالانکہ ’’گرہستن‘‘ جس بھونڈے بدتمیزانہ طریقہ سے پیسے بچاتی ہے وہ بھی ناظرین نے دیکھا ہی ہو گا۔

گن پوائنٹ سے لے کر رشوت، کمیشن، کک بیک تک بھی ’’پیسے‘‘ ’’کمائے‘‘ اور ’’بچائے‘‘ ہی تو جاتے ہیں جس کے نتیجہ میں یہ کلچر جنم لیتا ہے کہ تین بار وزیر اعظم رہنے کے بعد بھی اک شریف آدمی کیمروں کے سامنے یہ کہتا ہے کہ ’’اگر میرے اثاثے میری آمدنی سے زیادہ ہیں تو کسی کو کیا تکلیف ہے؟‘‘

حالانکہ انہی حرکتوں کے نتیجہ میں 21کروڑ عوام اَن گنت تکالیف سہنے پر مجبور ہیں، خودکشیاں ہوتی ہیں، جرائم جنم لیتے ہیں اور لوگ بنیادی ترین ضرورتوں سے بھی محروم ہو جاتے ہیں لیکن —– ’’جناب سپیکر! پیسے تو میں بچا ہی لیتا ہوں‘‘۔

کراچی کا قائم خانی بھی تو یہی کہتا ہے ناں—–’’پیسے تو میں بچا ہی لیتا ہوں‘‘اس سے پہلے بلوچستان کے ’’سگھڑ‘‘ رئیسانی نے بھی تو یہی کہا ہو گا کہ’’پیسے تو میں بچا ہی لیتا ہوں‘‘اور نون کے ’’نیلسن منڈیلا‘‘ نے بھی تو فلور آف دی ہائوس پر یہی کہا تھا ’’جناب سپیکر! یہ ہیں وہ ذرائع ،یعنی پیسے تو میں بچا ہی لیتا ہوں‘‘

تین حاضر سروس بیویوں کو ایک جیسے گھر گاڑیاں دینے والا پٹواری بھی انکوائری ہونے پر یہی کہتا ہے کہ ’’پیسے تو میں بچا ہی لیتا ہوں اور حرام کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا‘‘۔

اس ملک میں مختلف قسم کے پروفیشنلز جو یونینیں بنائے پھرتے ہیں، ان کے عہدوں کی آڑ میں بھی ’’پیسے تو وہ بچا ہی لیتے ہیں‘‘ ملک بنا تھا اسلام کے نام پر اور بنانے والا وہ جس کے حریف بھی اس کی دیانت کی تعریف کرتے نہیں تھکتے لیکن پھر کیا ہوا؟

ہر شعبہ میں اس شعبہ کے لوگوں نے ایسی ایسی نقب لگائی یا اس کو اس طرح ایکسپلائٹ اور Misuseکیا کہ الامان الحفیظ۔ یہ وہ کاریگر ہیں جو دوسروں کو ہی نہیں خود اپنے آپ کو بھی کامیابی سے یہ دھوکہ دیتے ہیں کہ وہ حرام نہیں حلال کما رہے ہیں کیونکہ ’’پیسے تو وہ بچا ہی لیتے ہیں‘‘ حالانکہ معیار تو حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ ہی عطا کر گئے کہ سرکاری امور پر گفتگو جب ذاتی گفتگو میں تبدیلی ہوئی تو بیت المال کے تیل سے جلنے والا چراغ گل کر دیا۔جس نے جو کرنا ہے کرے۔

مجھے تو ’’وٹ‘‘ اس وقت چڑھتا ہے جب یہ بات بات پر ان کے حوالے دیتے ہیں جن کے نام لیتے ہوئے بھی انہیں شرم آنی چاہئے۔ اپنی پوزیشن کو استعمال کرنے سے لے کر دوسروں کی مجبوریوں کمزوریوں کو ایکسپلائٹ کرنا حرام ہے کہ خنزیر کو تکبیر پڑھ کر ذبح کرنے سے وہ ’’حلال‘‘ نہیں ہو جاتا لیکن یہاں تو یونینز اور ایسوسی ایشنز بھی حرام کے لئے استعمال ہوتی اور حلال سمجھی جاتی ہیں کیونکہ—–’’پیسے تو وہ بچا ہی لیتے ہیں‘‘اربوں روپے کی دو نمبر ٹی ٹیاں پکڑی گئیں جن کے ریکارڈ کو چیلنج کیا ہی نہیں جا سکتا، باہر سے ٹی ٹیاں بھیجنے والے ٹریس ہوئے تو پتا چلا کہ یہ بھوکے ننگے لوگ ہیں، ملک سے باہر کیا جانا ان کے تو کبھی پاسپورٹ ہی نہیں بنے، صرف ان کے شناختی کارڈز استعمال ہوئے ہیں کیونکہ’’پیسے تو میں بچا ہی لیتا ہوں‘‘پورا ملک مدتوں سے اس ایک جملے کے پاس گروی پڑا ہے یا یرغمال ہے کہ ’’پیسے تو میں بچا ہی لیتا ہوں‘‘ اور پھر اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج ہم سب کسی اور کے پاس یرغمال ہیں یا گروی پڑے ہیں۔

ڈبل شاہوں اور عامل بابوں کی اک اپنی ہی دنیا ہے۔ یہ ’’بیچارے‘‘ نہ گن پوائنٹ پر لوٹتے ہیں نہ کسی سے کوئی رشوت، کمیشن، کک بیک لیتے ہیں…. لوگ انہیں خوشی خوشی اپنی مرضی سے ’’چڑھاوے‘‘ چڑھاتے اور کہنے کو وہ بھی حق بجانب ہیں کہ جو دے جائے اس کا بھلا جو نہ دے اس کی بھی خیر…. کوئی زور زبردستی، بلیک میلنگ نہیں لیکن پیسہ تو وہ بھی بچا ہی لیتے ہیں لیکن کیا واقعی سچ مچ یہ وہی کچھ ہے جو کبھی ہمارے کرنسی نوٹوں پر لکھا ہوتا تھا’’رزق حلال عین عبادت ہے‘‘نہیں یہ بدروحیں ہیں…. بری طرح بھٹکی اور بہکی ہوئی وہ بد روحیں جنہیں زندگی بھر پورے رستے میں یہ خبر نہیں ہوتی —– ’’کہ یہ راستہ کوئی اور ہے‘‘۔ وہ انہی رستوں کو ’’صراط مستقیم‘‘ سمجھتے رہتے ہیں۔

فیملی سمیت زیارتوں پر جانے کے اخراجات کی جبری وصولی کو جائز اور حلال سمجھنے والے مائنڈ سیٹ کو کیسے سمجھا اور سمجھایا جائے؟ حرام سے بھی کہیں بڑا حرام اور المیہ غالباً یہ ہے کہ آدمی حلال و حرام کی تمیز ہی کھو بیٹھے جیسے کسٹمز کے لوگ اک زمانہ میں حرام کو ’’سپیڈ منی‘‘ کہہ کر خود کو شانت رکھتے تھے۔

ذخیرہ اندوزی، حد سے بڑھی منافع خوری اور یہاں تک کہ سمگلنگ کیلئے ایسے ایسے جواز گھڑے جاتے ہیں اور یوں پیسے تو یہ بھی بچا ہی لیتے ہیں اور انہیں کوئی یہ پوچھنے والا بھی نہیں ہوتا کہ—–پیسے بچانے ہیں یا بچے؟ حال بچانا ہے یا مستقبل۔اور قبر چھوٹی بڑی نہیں —–’’محفوظ‘‘ ہونی چاہئے۔قیمت کوئی بھی ہو، کیسی بھی ہو—–’’پیسے تو یہ بچا ہی لیتے ہیں‘‘

Source: Jung News

Read Urdu column Pesay to main bacha he leti hu By Hassan Nisar

Leave A Reply

Your email address will not be published.