پونم کمار کی پکار ’’میرا بیٹا بچا لو‘‘ – حسن نثار

hassan-nisar

لائل پور سچ جبکہ فیصل آباد جھوٹ ہے۔ اس لئے میں تو اپنے شہر کو لائل پور ہی لکھتا، بولتا ہوں اور یہ کالم اسی شہر کے ایک مرحوم کردار پونم کمار کے حوالہ سے ہے جس کا اصل نام گلزار تھا۔ گلزار دلیپ کمار کی فلمیں دیکھ دیکھ کر اتنا انسپائر ہوا کہ گلزار سے پونم کمار ہوگیا۔ وہی ’’رانجھا رانجھا کردی نی میں آپے رانجھا ہوئی‘‘ والی بات۔ نوبت یہاں تک جا پہنچی کہ عوام جگہ جگہ گلزار عرف پونم کمار کو گھیر کر دلیپ کمار کی مختلف فلموں کے مکالمے سننے کی فرمائش کرتے اور پونم کمار سب کچھ چھوڑ چھاڑ، بھول بھال کر لوگوں کی فرمائشیں پوری کرنے میں مگن بلکہ مست ہو جاتا۔ اس جنون کا کلائمیکس کچھ یوں ہے کہ جب پونم کمار کی والدہ کا انتقال ہوا تو وہ حقیقی والدہ کے جنازہ پر اک فرضی پارو سے مخاطب ہو کر ’’داغ‘‘ میں بولے دلیپ کمار کے زبان زد عام جملے دہرانے لگا :

’’پارو! میری ماں مر گئی‘‘

’’پارو! میری ماں مر گئی‘‘

’’داغ‘‘ کے شرابی شنکر یعنی دلیپ کمار نے یہ ایک ہی جملہ مختلف انداز میں کچھ یوں بولا تھا کہ پورے برصغیر میں دھوم مچ گئی تھی۔ گلزار عرف پونم کمار اس وقت تک یہ جملہ دہراتا رہا جب تک باپ نے جوتا مار کر اسے چپ نہیں کرایا۔ پونم کمار کے کردار پر ہمارے ایک نامور ہدایت کار پرویزکلیم نے ’’فلمیریا‘‘کے عنوان سے ایک ادبی رسالہ میں نہایت خوب صورت افسانہ بھی لکھا۔ جن دنوں لائل پور میں پونم کمار کا ’’عروج‘‘ تھا ، میں شاید 9ویں 10ویں میں ہوں گا۔ پھر میں ایف اے کے بعد نیو کیمپس کے ہاسٹل میں آگیا لیکن جب بھی چھٹیوں میں گھر جاتا پونم کمار کے نت نئے کارنامے سنتا اور پھر سب کچھ ماضی قریب سے ماضی بعید میں بدل گیا کہ چند روز قبل مجھے ’’لائل پور پکچر گیلری‘‘ کے کسٹوڈین میاں بشیر اعجاز کا فون آیا جو مجھ جیسا ہی ماضی پرست انسان ہے جس نے قدیم لائل پور کو تصویروں میں قید کر رکھا ہے اور آج بھی جب لائل پور کی کوئی پرانی تاریخی عمارت ڈھائی جاتی ہے تو اس کی اینٹیں پتھر لا کر اس عمارت کی تاریخ کے ساتھ اپنی ’’پکچر گیلری‘‘ میں محفوظ کرکے اس پر گریہ کرتا رہتا ہے۔بشیر اعجاز لائل پور کی چلتی پھرتی تاریخ ہے۔ اس نے انتہائی کرب کے عالم میں مجھے بتایا کہ ’’پونم کمار مرحوم کا بیٹا شکیل احمد جگر کی جاں لیوا بیماری میں مبتلا ہے اور علاج بہت مہنگا ہے۔ شکیل کے 5بیٹے، ایک بیٹی اور اہلیہ ہے۔ وہ اپنی جمع پونجی ڈاکٹر عمران (فیصل ہسپتال)، وقاص قادری (ساحل ہسپتال)، ڈاکٹر عرفان رسول، ڈاکٹر تیمور (چغتائی لیب) ڈاکٹر شاہد رسول (بٹالہ کالونی)، ڈاکٹر بلال جاوید عبداللہ پور وغیرہ وغیرہ میں خرچ کرکے آخر میں شفا انٹرنیشنل ہسپتال اسلام آباد تک گیا تو علاج مہنگا ہونے کی وجہ سے سوائے چند دوائیوں کے کچھ نہ ملا۔ بیٹے اور بیگم کے ٹیسٹ بھی ہو چکے جو شکیل کو اپنے جگر کا حصہ ڈونیٹ کرسکتے ہیں۔ شکیل اپنے علاقہ کے ایم این اے میاں فرخ حبیب (سٹیٹ منسٹر) کو بھی ملا لیکن قیمتی وقت گزرتا جا رہا ہے‘‘۔

میرے کہنے پر بشیر اعجاز نے شکیل کا تمام تر طبی ریکارڈ مجھے بھیجا لیکن سمجھ نہیں آ رہی کیا کروں؟

ملاّ کی دوڑ مسجد تک، لکھاری کی دوڑ قاری تک سو کیس آپ کے سامنے ہے۔

شکیل کا فون نمبر 0300-6500125اور ID کارڈ نمبر 33100-5903145-5اور اس کا ایڈریس ہے مکان نمبر 253-A بلاک سی نزد فردوسیہ مسجد دکن پارک سمن آباد فیصل آباد۔

دیگر تفصیلات کے لئے جو چاہے میاں بشیر اعجاز سے بھی اس نمبر پر رابطہ کرسکتا ہے۔ 0300-6602211۔

شفا انٹر نیشنل ہسپتال والوں سے جو آخری ٹیسٹ کروائے گئے ان کے نتیجہ میں علاج کا تخمینہ 70لاکھ ہے۔

قارئین! آخر پہ اپنے مشیر خزانہ شوکت ترین کے بیان سےکشید کی گئی ایک اخباری سرخی…….

’’ٹیکس لینا حکومت کا حق ہے‘‘

وزیر خزانہ نے سو فیصد سچ کہا لیکن یہ ایک بہت ہی ادھورا سچ ہے کیونکہ ’’اگر ٹیکس لینا حکومت کا حق ہے‘‘ تو عوام کو کچھ نہ کچھ دینا بھی حکومت کافرض ہے کیونکہ جہاں ’’حقوق‘‘ ہوتے ہیں ان کے ساتھ کچھ ’’فرائض‘‘ بھی ہوتے ہیں مثلاً تعلیم، علاج، تحفظ جبکہ پورے ملک میں یہ تمام تر ’’فرائض‘‘بھی عوام ہی کے ذمہ ہیں۔ عوام اپنے بچے خود پڑھاتے ہیں( یا آوارہ چھوڑ دیتے ہیں)بیمار ہوں تو علاج خود کرتے کراتے ہیں (یا چپکے سے مر جاتے ہیں) اور جہاں تک تعلق ہے تحفظ کا تو کوئی ایک ڈھنگ کی ہائوسنگ سوسائٹی بتائیں جہاں عوام نے پرائیویٹ گارڈز نہ رکھے ہوئے ہوں ( باقیوں کا اللہ حافظ)

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

Source: Jung News

Read Urdu column Ponam Kumar ki Pukar Mera Beta Bacha lo By Hassan Nisar

Leave A Reply

Your email address will not be published.