قرضِ حسنہ کا ڈیپارٹمنٹل سٹور- اوریا مقبول جان

Orya Maqbool

زندگی کے کسی موڑ پر آپ کو کچھ لوگ ایسے ملتے ہیں کہ آپ پر ایک حیرت کا جہان کھل جاتا ہے اور آپ کو اس مالکِ کائنات کے ایک خوبصورت منصوبہ ساز ہونے پر یقین مزید پختہ ہو جاتا ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک روز سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سوال کیا کہ ’’ایسا کیوں ہے کہ آپ کو کچھ لوگ بلاوجہ اچھے لگتے ہیں، ان سے دوستی کرنے یا ان کے قریب رہنے کو جی چاہتا ہے۔ باب العلم سیدنا علی ؓ نے جواب دیا کہ عالمِ ارواح میں جو روحیں ایک ساتھ رہتی رہی ہوں، تو وہ جب اس دُنیاوی زندگی میں جہاں بھی ملیں گی ایک دوسرے کے قریب آنا چاہتی ہیں‘‘۔ عالمِ ارواح کی تو ہمیں کچھ خبر نہیں، لیکن کئی لوگوں سے ملاقات کے وقت سیدنا علیؓ کے اس قول کی بار بار تصدیق ہوتی ہے۔ ایسا ہی جہان حیرت مجھ پر اس وقت کھلا جب میں چند سال قبل اپنے دانت میں تکلیف کی وجہ سے ایک مرد درویش ڈاکٹر عتیق کے وحدت روڈ لاہور پر واقع کلینک میں گیا۔

وہ صاحب ویسے ہی اچانک بہت اچھے لگے، لیکن حیرت کی بات یہ تھی کہ آج سے پچپن سال قبل، میرے والد میرے دانت دکھانے کے لئے گجرات میں جس ڈاکٹر کے پاس لے جاتے تھے وہ ان کے والد ڈاکٹر لئیق احمد تھے۔ یوں لگتا ہے جیسے عالمِ ارواح میں انسان نہیں، بلکہ خاندان بھی شاید اکٹھا ہوا کرتے ہوں گے۔ ڈاکٹر عتیق عموماً ہر ماہ مستحقین میں راشن تقسیم کیا کرتے تھے، جس کی بوریاں ان کے کلینک میں پڑی رہتیں۔ ان کے کلینک کے سامنے ایک بزرگ ترکھان محنت مزدوری کرتا تھا۔ ایک دن وہ بزرگ کلینک آیا اور سوال کیا کہ ’’کیا یہ راشن زکواۃ یا صدقات میں سے ہے‘‘۔ وہاں موجود لڑکے نے جواب دیا کہ ’’ہاں‘‘۔ اس نے جواب دیا کہ پھر میں نہیں لے جائوں گا۔ جب وہ دکان بند کرنے لگا تو ایک بار پھر آیا اور کہا کہ یہ ماہانہ راشن کا پیکٹ کتنے کا ہے، اور کیا میں اسے لے جائوں اور ایک ماہ میں آہستہ آہستہ اس کی قیمت ادا کر دوں۔ کلینک پر موجود اٹینڈنٹ نے ڈاکٹر عتیق سے پوچھا اور انہوں نے ہاں کر دی۔ وہ خوشی خوشی راشن لے گیا اور پھر آہستہ آہستہ وہ اس کی قیمت واپس کرنے لگا اور مہینے کے آخر تک پوری قیمت چکانے کے بعد بولا کہ میں اگلے ماہ کے لئے ایک اور راشن لے جا سکتا ہوں۔ ڈاکٹر صاحب کے منصوبہ ساز ذہن کو ایک ترکیب سوجھی، اور وہ اس سلسلے کو وسعت دینے کا سوچنے لگے۔ وہ ایک غریب محلے کے کریانہ سٹور پر گئے، جہاں سے دیہاڑی دار غریب لوگ اُدھار پر روزانہ کے حساب سے اشیائے صرف لے جاتے تھے، مثلاً ایک پائو گھی، دو کلو آٹا، چائے کی پتی وغیرہ۔ ڈاکٹر صاحب نے اس دکاندار سے مستقل قرض خواہوں کی لسٹ طلب کی جو اس کے پاس ایک کھاتے کے طور پر موجود تھی۔ اس کھاتے سے اندازہ ہوا کہ تھوڑا تھوڑا سامان خریدنے اور پرچون کے طور پر لینے کی وجہ سے کم از کم ڈیڑھ گنا زیادہ قیمت دینی پڑتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے ان تمام کھاتے داروں سے رابطہ کیا اور ان سے کہا کہ اگر ہم آپ کو مہینے کا اکٹھا راشن لے کر دے دیں اور وہ یقیناً بہت کم قیمت پر ہو گا اور آپ ہمیں آہستہ آہستہ روزانہ کی بنیاد پر یہ پیسے ایک ماہ میں واپس کرتے جائیں اور پوری ادائیگی کے بعد اگلا راشن لے جائیں۔ یہ سلسلہ شروع کیا گیا اور منصوبہ اس قدر کامیاب ہوا کہ آج یہ قرضِ حسنہ انہوں نے لاہور میں کئی جگہوں پر شروع کر رکھا ہے۔ یہ خیال اور منصوبہ ڈاکٹر صاحب کے دماغ میں اچانک نہیں آیا۔ اس کے پیچھے ایک اور درویش کی شاندار قابلِ تقلید مثال موجود تھی۔ ہمارے شہر گجرات کی ایک مسجد میں ایک مولوی کرم الٰہی صاحب قصور سے آ کر نماز پڑھانے لگے۔ ایک دن اچانک انہیں علم ہوا کہ ان کے والد کے ترکے میں ان کے لئے اسّی لاکھ روپے چھوڑے ہیں۔ ستر کی دہائی میں یہ بہت بڑی رقم تھی۔

مولوی صاحب کے منصوبہ ساز ذہن میں ایک ترکیب آئی۔ وہ گجرات کی ڈسٹرکٹ جیل چلے گئے اور سپرنٹنڈنٹ جیل سے پوچھا کہ آپ کے پاس ایسے قیدیوں کی لسٹ ہے، جو اس وجہ سے جیل میں ہیں کہ انہوں نے کسی کا قرض دینا ہے۔ اس وقت ان کی تعداد صرف تیرہ تھی۔ ان میں سب سے بڑا مقروض ایک کاروباری شخص تھا جس کا کاروبار تباہ ہو چکا تھا اور وہ چار لاکھ روپے کا زیرِ بار تھا۔ مولوی کرم الٰہی نے اسے چار لاکھ روپے قرض اُتارنے کے لئے دیئے اور ساتھ ہی چار لاکھ روپے مزید دیئے، تاکہ وہ اپنا کوئی کاروبار شروع کر سکے اور جب کبھی زندگی میں خوشحالی آ جائے اور وہ اس قابل ہو جائے تو یہ رقم واپس کر دے۔ اب انہیں اپنے پاس موجود اپنے والد کی میراث کا شاندار مصرف مل گیا۔ مولوی صاحب ایسے قرض داروں کو ڈھونڈتے، جو قرض کی چکی تلے پِس رہے تھے اور ان کا روزمرہ کا کاروبار بھی تباہ ہو چکا تھا اور پھر ان مفلوک الحال لوگوں کا قرض اُتارتے اور اتنی ہی رقم کاروبار کرنے یا اسے مستحکم کرنے کے لئے دیتے۔ رفتہ رفتہ یہ سلسلہ اس قدر بڑھا کہ انہیں اپنی مدد کے لئے لوگ درکار ہو گئے۔ ڈاکٹر صاحب اور ان کا ایک دوست اس میں مدد کرنے لگے۔ یہ سلسلہ کروڑوں تک جا پہنچا۔ وہ شخص جو مولوی صاحب سے چار لاکھ لے کر گیا تھا، وہ اس قدر کامیاب ہوا کہ برطانیہ میں اس کے کاروبار نے اتنی وسعت پکڑی کہ وہ روزانہ مولوی صاحب کے اکائونٹ میں پانچ سو پونڈ جمع کروانے لگا۔ ایک دن مولوی صاحب اپنے مالک کے حضور جا پہنچے۔ بعد میں لوگوں نے اتنا تردّد کیا اور نہ ہی ویسی لگن کسی اور میں تھی، اس لئے یہ سلسلہ آج موجود تو ہے لیکن بہت سست ہو چکا ہے۔ یہ دو واقعات نہیں بلکہ دو تصورات ہیں کہ کیسے کسی کو قرضِ حسنہ کے ذریعے اپنے پائوں پر کھڑا کیا جا سکتا ہے۔

اور کیسے ایک غریب آدمی کو عزت و توقیر کے ساتھ زکواۃ و صدقات سے محفوظ رکھ کر اس کی مدد کی جا سکتی ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی لئے خیرات سے قرضِ حسنہ کو افضل ترین بتایا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’معراج کی رات میں نے جنت کے دروازے پر لکھا ہوا دیکھا ہے کہ صدقے کا ثواب دس گنا اور قرض کا اٹھارہ گنا ہے۔ میں نے کہا: اے جبرئیل! کیا وجہ ہے کہ قرض صدقے سے زیادہ فضیلت کا حامل ہے؟ انہوں نے کہا: اس لئے کہ سائل بعض اوقات سوال کرتا ہے، حالانکہ اس کے پاس ضرورت کا مال موجود ہوتا ہے، جبکہ قرض لینے والا ضرورت اور مجبوری کی حالت میں قرض لیتا ہے‘‘ (سنن ابن ماجہ: 2431)۔ یہ ایک حدیث نہیں ہے، بلکہ لاتعداد ایسی احادیث موجود ہیں جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے ایک دفعہ قرض دینا دو دفعہ صدقہ دینے کے برابر ہے یا جو شخص قرض دار کو مہلت دیتا ہے تو روزانہ اس قرضے کے حساب سے اسے صدقے کا ثواب ملتا رہتا ہے۔ ایسی صورت میں کون ہے، جو قرضِ حسنہ کی بجائے خیرات دے کر اپنا اجر کم کرے گا۔ یہ دُنیا کے نہیں بلکہ آخرت کے سودے ہیں۔ جی چاہتا ہے کہ ہر شہر میں کوئی ایک بڑا ڈیپارٹمنٹل سٹور ایسا کھلے جس کی ممبر شپ صرف غرض مند لوگوں تک محدود ہو، جو اس سٹور سے ہر ماہ کے لئے راشن کریڈٹ پر حاصل کریں اور پھر پورا مہینہ آسان اقساط سے اس کی ادائیگی کریں۔ ایک شاندار ایئر کنڈیشنڈ باعزت ماحول ایسے تمام افراد کو میسر کیا جائے۔ جو لوگ اس سلسلے میں کام کرنا چاہتے ہیں مجھے اس ای میل [email protected] پر رابطہ کریں تاکہ ہم جلد ایک ایسا گروپ تشکیل دے سکیں جو اس طرح کا ایک ڈیپارٹمنٹل سٹور بنائے جس کی ممبر باعزت اور باغیرت غرباء تک محدود ہو۔

Source: 92 news
Must Read Urdu column Qarze Hasna ka Departmental Store By Orya Maqbool jan

Leave A Reply

Your email address will not be published.