ریزن ایبل – جاوید چودھری

Javed Chaudhry Columns

میں ٹوائلٹ سے باہر نکلا تو وہ سامنے کھڑے تھے‘ مجھے دیکھ کر غصے سے بولے ”آپ نے یہ نیا ائیرپورٹ دیکھا“ میں نے ہنس کر جواب دیا ”ماشاءاللہ بہت خوبصورت ہے‘ یہ انٹرنیشنل لک دینے والا پاکستان کا پہلا ائیرپورٹ ہے“ وہ چڑ گئے اور بولے ”آپ ٹوائلٹ دیکھیں‘کتنے گندے اور بدبودار ہیں“ میں نے عرض کیا ”ٹوائلٹ ماڈرن اور خوبصورت ہیں‘ ہم لوگ انہیں گندہ کر رہے ہیں‘ ہم اگر کموڈ پر پاﺅں رکھ کر بیٹھیں گے‘ ہم ٹوائلٹ پیپر کموڈ میں پھینک دیں گے‘ ہم مسلم شاور توڑ دیں گے‘ ہم وینٹی گیلی کر دیں گے‘ ہم فرش پر پانی گرائیں گے اور ہم اگر گیلے ہاتھ دیواروں پرلگائیں گے تو حکومت انہیں کیسے اور کتنا صاف رکھ سکے گی‘ چیزوں کو ٹھیک رکھنے
کی 80 فیصد ذمہ داری استعمال کرنے والوں پر عائد ہوتی ہے‘ یہ اگر اپنی ذمہ داری نہیں نبھاتے تو پھر چیزیں ٹھیک نہیں رہ سکتیں“ میں نے اس دوران ہاتھ دھونا شروع کر دیئے‘ وہ اپنا ”مقصد“ بھول کر میرے پیچھے کھڑے ہو گئے اور زور زور سے ہاتھ ہلا کر کہنے لگے ”آپ تو حکومت کی چمچہ گیری کریں گے ہی‘ آپ شریفوں کے پٹواری جو ہوئے“ میری ہنسی نکل گئی‘ میں نے عرض کیا ”جناب یہ ائیرپورٹ میاں نواز شریف نے نہیں بنایا‘ یہ وزیراعظم شوکت عزیز کا منصوبہ تھا‘ یہ جگہ اور یہ ڈیزائن تک انہوں نے سلیکٹ کیا تھا‘ میاں نواز شریف نے بس اسے مکمل کرایا چنانچہ اگر کسی کو اس کا کریڈٹ جاتا ہے تو وہ شوکت عزیز ہیں اور ہمیں ماننا پڑے گا ڈیزائن سے لے کر جگہ تک یہ ائیرپورٹ واقعی انٹرنیشنل دکھائی دیتا ہے“

وہ غصے سے سرخ ہو گئے اور بولے ”آپ ایمان سے بتاﺅ کیا میاں نواز شریف چور نہیں ہیں‘ کیا اس نے قوم کے تین ہزار ارب روپے نہیں چرائے“ میں نے قہقہہ لگایا‘ ٹشو پیپر سے ہاتھ صاف کئے اور عرض کیا ”ہو سکتا ہے میاں نواز شریف واقعی چور ہوں لیکن 1993ءمیں پاکستان کا کل بجٹ 3کھرب 32ارب روپے اور 1998-99ءمیں 6کھرب6ارب
روپے تھا‘ ہم الزام لگا رہے ہیں نواز شریف قوم کے تین ہزار ارب روپے کھا گئے‘ کیا یہ 1993ءمیں ملکی بجٹ سے 10گنا اور 1999ءمیں 5گنا رقم باہر لے گئے تھے‘ کیا یہ ممکن ہے؟ میاں نواز شریف نے اگر جرم کیا ہے تو انہیں ضرور سزا ملنی چاہیے لیکن ہمیں سزا میں ریزن ایبل رہنا چاہیے‘ ہمیں سوتن کی طرح دنیا کا ہر نقص‘ ہر کیڑا نواز شریف کی ذات میں نہیں ڈال دینا چاہیے“ میں نے ٹشو پیپر ڈسٹ بین میں پھینکا اور بیگ لے کر باہر آگیا جبکہ وہ بزرگ اپنا ”مقصد“ پورا کرنے کےلئے ٹوائلٹ کے اندر چلے گئے۔

ہم لوگ بدقسمتی سے محبت اور نفرت دونوں میں شدت پسند ہیں‘ ہم جب کسی کو پسند کرتے ہیں تو ہم اسے پیغمبری کے درجے تک لے جاتے ہیں اور جب کسی کو ناپسند کرتے ہیں تو اس شخص کو شیطان ثابت کردیتے ہیں اور دنیا میں جب بھی اور جہاں بھی ایسی شدت پسندی آتی ہے وہاں سب سے پہلے ریزن قتل ہوتی ہے‘ لوگ ”ان ریزن ایبل“ ہو جاتے ہیں اور ہم کس قدر ”ان ریزن ایبل“ ہیں‘ آپ اس کا اندازہ ملک کے تین تازہ ترین بیانیوں سے لگا لیجئے‘ پہلا بیانیہ پنجاب کی ڈویلپمنٹ ہے‘

پنجاب میں پچھلے دس سالوں میں حقیقتاً کام بھی ہوا اور صوبے کی حالت میں بھی واضح تبدیلی آئی تاہم ترجیحات پر گفتگو ہو سکتی ہے‘ ہم یہ بحث کر سکتے ہیں صوبے میں سکول اور ہسپتال پہلے بننے چاہیے تھے یا پھر پاور پلانٹس‘ سڑکیں‘ پل‘ میٹروز اور اورنج لائین ٹرین پہلے شروع ہونی چاہیے تھی لیکن ہم پنجاب میں ہونے والے کاموں اور تبدیلی کو یکسر مسترد نہیں کر سکتے‘ ملک کے باقی تینوں صوبوں نے اورنج لائین ٹرین‘ میٹرو‘ پل‘ سڑکیں اور پاور پلانٹس بھی نہیں بنائے اور ہسپتال اور سکول بھی تعمیر نہیں کئے‘

وہاں سرے سے کچھ نہیں ہوا مگر ہم پنجاب کا احتساب کر رہے ہیں‘ ہم شہباز شریف کو کرپٹ ثابت کر رہے ہیں اور باقی صوبوں سے یہ تک نہیں پوچھ رہے ”آپ نے پانچ برسوں میں کیا کیا؟“ کیا یہ رویہ ”ریزن ایبل“ ہے؟ دو‘ ملک میں بڑے تواتر سے یہ پروپیگنڈا ہورہا ہے پاکستان کو دنیا کا مقروض ترین ملک بنا دیا گیا‘ آپ کسی دن سی آئی اے کی دی ورلڈ فیکٹ بک کھول کر دیکھ لیں‘ آپ وہاں پاکستان کا نام 58ویں نمبر پردیکھ کر حیران رہ جائیں گے‘

ہم سے اوپر(نیچے سے اوپر کی طرف) مصر‘ فلپائن‘ پانامہ‘ نیوزی لینڈ‘ مالٹا‘ ویتنام‘ اسرائیل‘ رومانیہ‘ سائیپریس‘ وینزویلا‘ کولمبیا‘ یوکرائن‘ ہنگری‘ تھائی لینڈ‘ ساﺅتھ امریکا‘ چیک ری پبلک‘ قازقستان‘ چلی‘ قطر‘ تائیوان‘ ارجنٹائن‘ سعودی عرب‘ ملائیشیا‘ یو اے ای‘ انڈونیشیا‘ پولینڈ‘ ساﺅتھ کوریا‘ ترکی‘ پرتگال‘ روس‘ میکسیکو‘ سنگا پور‘ بھارت‘ ڈنمارک‘ ہانگ کانگ‘ یونان‘ فن لینڈ‘ برازیل‘ ناروے‘ آسٹریا‘ سویڈن‘ بیلجیئم‘ کینیڈا‘ چین‘ سوئٹزرلینڈ‘ آسٹریلیا‘ سپین‘ اٹلی‘ آئر لینڈ‘ جاپان‘ لکسربرگ‘ ہالینڈ‘ جرمنی‘ فرانس‘ برطانیہ‘ یورپین یونین اور امریکا ہیں‘ امریکا دنیا میں سب سے بڑا مقروض ملک ہے‘ اس کے ذمے 18 ٹریلین ڈالر ہیں‘ یورپین یونین نے 13 ٹریلین ڈالر‘ برطانیہ نے سوا آٹھ ٹریلین ڈالر اور فرانس اور جرمنی نے سوا‘ سوا پانچ ٹریلین ڈالر ادا کرنے ہیں

جبکہ چین پونے دو ٹریلین ڈالر اور بھارت 483 ارب ڈالر‘ ترکی 429 ارب ڈالر‘ یو اے ای 240 ارب ڈالر اور سعودی عرب 213 ارب ڈالر کے مقروض ہیں‘ پاکستان کے ذمے 75 ارب ڈالر ہیں‘ دنیا کے 207 ملکوں میں سے 203 اس وقت مقروض ہیں‘ سعودی عرب سمیت پوری اسلامی دنیا نے قرضے لے رکھے ہیں‘دنیا کے تیل پیدا کرنے والے دس ملک بھی مقروض ہیں‘ جاپان جیسے ملک نے اپنے کل جی ڈی پی سے ساڑھے تین سو فیصد زیادہ قرضے لے رکھے ہیں اوریہ اگر آج مزید قرضے بند کر کے پرانے قرضے ادا کرنا شروع کر دے تو اسے قرضوں کی ادائیگی کےلئے پچاس سال چاہئیں چنانچہ قرضے لینے میں کوئی حرج نہیں‘

اگر چین‘ پورا یورپ‘ پوری اسلامی دنیا اور پورا امریکا اور روس قرضوں کے بغیر معیشت نہیں چلا سکتے تو ہم کیسے چلائیں گے تاہم یہ قرضے ٹھیک جگہ پر لگنے چاہئیں اور ان سے قسطوں کی رقم ضرور نکلنی چاہیے اور یہ ”ٹھیک جگہیں“ صرف انفراسٹرکچر یعنی ڈیم‘ پاور پلانٹس‘ موٹرویز‘ سڑکیں‘ پل‘ میٹروز‘ ریلوے‘ بندرگاہیں اور ائیرپورٹ ہی ہو سکتی ہیں‘ سکول اور ہسپتال بھی انتہائی ضروری ہوتے ہیں لیکن کیا یہ قرضوں کی قسط کما کردے سکتے ہیں؟

جی نہیں چنانچہ ہمیں سکول اور ہسپتال اپنی رقم سے بنانے چاہئیں اور انفرا سٹرکچر بیرونی قرضوں سے مکمل کرنا چاہیے اور ہم جتنی جلدی انفراسٹرکچر مکمل کر لیں گے ہم اتنی ہی جلدی ”ہیومن ریسورس“ پر توجہ دے سکیں گے‘ آج یورپ‘ یورپ اور امریکا‘ امریکا اس لئے ہے کہ اس نے ڈیڑھ دو سو سال پہلے اپنی مرضی کے مطابق ڈیمز‘ ریلوے ٹریکس‘ پاور پلانٹس‘ موٹر ویز‘ سڑکیں‘ میٹروز‘ پل اور بندرگاہیں بنالی تھیں چنانچہ یہ سو سوا سو سال سے اپنے بجٹ کا زیادہ حصہ تعلیم‘ صحت‘ ماحولیات‘ روزگار اور انسانی ترقی پر خرچ کر رہے ہیں‘ ہم بھی جب تک انفراسٹرکچر مکمل نہیں کریں گے

ہم اس وقت تک لوگوں پر توجہ نہیں دے سکیں گے چنانچہ ہمیں جہاں سے بھی مدد اور رقم ملتی ہے ہمیں جلد سے جلد لے کر اپنا انفراسٹرکچر مکمل کر لینا چاہیے‘ہم دنیا سے پہلے ہی پچاس سال لیٹ ہیں‘ ہمیں مزید تاخیر نہیں کرنی چاہیے‘ آپ جرمنی اور جاپان کی مثال لیں‘ امریکا نے دوسری جنگ عظیم میں ان کا پورا انفراسٹرکچر تباہ کر دیا لیکن امریکا نے جنگ کے بعدجب دونوں ملکوں کو امداد اور قرضوں کی پیش کش کی تو دونوں نے نہ صرف دشمن کی یہ آفر قبول کر لی بلکہ پانچ برسوں میں اپنا سارا انفراسٹرکچر بھی مکمل کر لیا

اور یوں یہ دونوں ملک پندرہ برسوں میں دوبارہ اپنے قدموں پر کھڑے ہو گئے لہٰذا ہمیں بھی قرضوں کے معاملے میں ریزن ایبل ہوناپڑے گا اور تین‘ چیئرمین نیب نے 8مئی کو میاں نواز شریف کی طرف سے چار اعشاریہ 9 بلین ڈالر بھارت منتقل کرنے کی پریس ریلیز جاری کر دی‘ یہ پریس ریلیز بھی ”ریزن ایبل“ نہیں تھی‘چیئرمین نیب نے ایک غیر معروف کالم نگار کی درفنطنی پر تحقیقات کے بغیر نوٹس جاری کر دیا اور یوں بحران پیدا ہو گیا‘ چار اعشاریہ 9 بلین ڈالر بہت بڑی رقم ہوتی ہے‘

یہ پاکستان کے کل بجٹ کا9.5 فیصد بنتا ہے‘ دنیا میں اتنی بڑی رقم کسی ایک ملک سے دوسرے ملک میں منتقل کرنا ممکن نہیں‘ راجیو گاندھی بوفورس توپوں کے سودے میں 660ملین ڈالر ”کک بیکس“ لی تھیں‘ وہ یہ رقم نہیں چھپا سکے تھے‘ الطاف حسین پانچ لاکھ پاﺅنڈ نہیں چھپا سکے اور بلوچستان کے سیکرٹری خزانہ 65کروڑروپے(ڈالرز میں 5اعشاریہ 6ملین) گھر میں چھپانے پر مجبور ہو گئے‘ وہ یہ رقم کہیں منتقل نہیں کر سکے تھے اور یہ پانچ بلین ڈالر ہیں‘

آپ اتنی رقم کسی ملک سے نکال سکتے ہیں اور نہ ہی دوسرے ملک میں داخل کر سکتے ہیںلیکن آپ نے ایک کالم کی بنیاد پر مان لیا اسحاق ڈار نے یہ رقم سرکاری خزانے سے نکال کر دوبئی بھجوائی اوروہاں سے یہ بھارت چلی گئی‘ یہ کیسے ممکن ہے؟ چنانچہ نیب جیسے مقدس اداروں کو بھی احتساب کے دوران ”ریزن ایبل“ رہنا چاہیے‘سنی سنائی باتوں پر ایکشن نہیں لے لینا چاہیے۔ہمیں من حیث القوم ریزن ایبل ہونا ہو گا‘ ہمیں اچھے کاموں کی تعریف اور برے کاموں پر تنقید کی عادت ڈالنا ہو گی

اور ہمیں کتوں کے پیچھے بھاگنے سے پہلے اپنے دونوں کان چیک کرنے کی عادت بھی ڈالنا ہو گی‘ ہمارے زیادہ تر مسئلے حل ہو جائیں گے ورنہ ہم اسی طرح قومی ایشوز ٹوائلٹس میں ڈسکس کرتے رہ جائیں گے اور دنیا ہم سے مزید دس ہزار کلومیٹر آگے نکل چکی ہو گی۔

Source
Must Read urdu column Reasonable By Javed Chaudhry

Leave A Reply

Your email address will not be published.