صبر، قناعت، قسمت، ثابت قدمی – ڈاکٹر عبد القدیر

dr-abdul-qadeer-khan

اللہ تعالیٰ نے ہمیں صبر، قسمت پر بھروسہ اور اللہ پر اُمید رکھنے کی ہدایت کی ہے مثلاً مندرجہ ذیل آیات میں یہ احکامات یوں بیان کئے گئے ہیں۔

(1) اے ایمان والو صبر کرو اور صبر کی تلقین کرتے رہو (آل عمران، 200)۔ (2) اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے (البقرہ ،249)۔ (3) اور جو کچھ مشکلات تمہیں پیش آئیں ان پر صبر کیا کرو، بیشک یہ صبر بڑی ہمّت کے کاموں میں سے ہے (لقمان،17)۔ (4) آپ صبر کیجئے، بیشک اللہ کا وعدہ سچا ہے (الروم ، 60)۔(5) ثابت قدم رہنے والوں کو پورا اجر ملے گا (الزمر،10)۔ (6) اے ایمان والو صبر اور نماز سے تقویت حاصل کرو بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے (البقرہ،152)۔ (7) اور اپنے پروردگار کی رضا کے لئے صبر کیجئے (ق، 39)۔ (8) اور تنگی میں اور بیماری میں اور لڑائی کے وقت صبر کرنے والےہی متقی ہیں (البقرہ ،177)۔ اسی طرح قسمت کو کبھی بُرا نہیں کہنا چاہئے چونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمیں دی گئی ہے۔ آئیے اب دیکھیں کہ شیخ سعدی مرحوم ہمیں (بوستان میں) کیا ہدایات چھوٹے چھوٹے واقعات کے ذریعےسے دیتے ہیں۔

’’سعادت و خوش بختی تو اس عادل خدا کی دین ہے کسی طاقتور کے بازو اور پنجے میں نہیں ہے۔ جب بلند آسمان دولت عطا نہیں کرتا تو ہر طرح کی دلیری و مردانگی کے باوجود اسے (دولت کو) کمند میں نہیں لایا جاسکتا۔ نہ تو چیونٹی کو اپنی ناتوانی کے باعث کوئی تکلیف پہنچتی ہے اور نہ شیر ہی اپنے پنجوں کے زور سے کھاتے ہیں۔ جب آسمان (یعنی تقدیر) پر دست درازی نہیں ہوسکتی تو اس کی گردش سے موافقت کرنا ضروری ہے۔ اگر تقدیر میںدیر تک زندہ رہنا لکھا ہے تو نہ تو تجھے سانپ ہی ڈس سکتا ہے یا ڈسے گا‘ نہ تلوار ہی تجھے کاٹے گی اور نہ شیر ہی تجھے کھائے گا اور اگر تیری زندگی کا کوئی حصہ باقی نہیں ہے تو شہد بھی تجھے زہر کی طرح ہلاک کرڈالے گا۔ چنانچہ جب (مشہور پہلوان) رستم نے آخری روزی کھا لی توکیا شغاد جیسے کمزور نے اس کا کام تمام نہیں کردیا تھا‘‘۔

(1)اصفحان میں میرا ایک دوست تھا جو چالاک، لڑاکا اور عیار (ہوشیار) تھا۔ ہر وقت اس کے ہاتھ اورخنجر خون سے رنگین رہتےتھے۔ میں نے کوئی ایسا دن نہیں دیکھا جب اس نے ترکش نہ باندھا ہو اور اس کے نیزے کے فولاد سے آگ نہ نکلی ہو۔ وہ ایسا دلیر تھا جس کا بیل جیسی قوت کا پنجہ تھا اور اس کی ہیبت کے باعث شیروں میں بھی شور برپا تھا۔ وہ دعویٰ کے ساتھ کچھ اس اندازمیں تیر چلاتا کہ واضح طور پر ہرایک تیر کے ساتھ کسی ایک کو مار گراتا۔ پھول میں کوئی ایسا کانٹا نہ تھا جو اس نے صاف نہ کیا ہو، اس لئے کہ اس کے نیزے ڈھالوں کے ساتھ پیوست تھے۔ اس نے کسی سپاہی کے سر پر کوئی ایسا نیزہ نہیں مارا جس سے اس کے سر اور خود (آہنی ٹوپی) کو باہم نہ ملا دیا ہو۔ جنگ کے موقع پر اس کے لئے کسی چڑیا یا آدمی کو مارنا برابر ہوتا۔ بالکل اسی طرح جیسے دن کے وقت چڑیا ٹڈی مار ڈالتی ہے۔اگر اسے فریدون (جیسے قدیم ایرانی بادشاہ) پر حملہ کرنا ہوتا تو وہ اسے (فریدون کو) تلوار کھینچنے کا بھی موقع نہ دیتا۔ اس کے پنجوں کی قوت کے سامنے چیتوں جیسے درندے بھی سر جھکا دیتے اور وہ شیر کے مغز میں بھی پنجہ چبھو دیتا۔ تو نے تو کسی جنگ آزما کا (صرف) کمربند پکڑا ہے یا پکڑے گا لیکن اگر اس کے سامنے پہاڑ بھی ہوتا تو وہ اسے جگہ سے ہلا کے یا اکھیڑ کے رکھ دیتا۔ جب وہ کسی زرہ پوش کو کلہاڑی سے مارتا تو وہ اس کے جسم سے گزر کر زین پر جالگتی۔ کسی نے بھی نہ تو بہادری میں اور نہ انسانیت ہی میں اس کا کوئی ثانی دیکھا ہے۔

وہ مجھ سے کبھی ایک پل کےلئے بھی جدا نہ ہوتا، اسلئے کہ اسے نیک سیرت انسانوں سے محبت تھی۔ ایک مرتبہ مجھے اچانک اس شہر کو چھوڑنا پڑا،کیونکہ میرے لئے اس سرزمین میں اب وہ پہلے والی روزی نہ تھی۔ اتفاق سے میں عراق سے شام چلا گیا، میں جو وہاں کچھ مدت مقیم رہا تو وہ محض ارادت کی بنا پر۔ اب امید و خوف اور رنج و راحت میں میرے دن گزر رہے تھے چنانچہ دوبارہ ملک شام سے میرا پیمانہ پُر ہوگیا اور گھرکی آرزو نے مجھے اس طرف کھینچا۔ قسمت کی بات کہ ایسا اتفاق ہوا کہ پھر عراق سے میرا گزر ہوا۔ وہاں ایک رات میں اپنے خیالوں میں گم تھا کہ مذکورہ ہنر منددوست کا خیال میرے دل میں آگیا۔ گویا نمک نے پھر پرانا زخم تازہ کردیا۔ اس لئے کہ میں نے اس کے ہاتھ کا نمک کھایا تھا چنانچہ میں اس سے ملاقات کرنے کی خاطر اصفحان روانہ ہوگیااور اس کی محبت کا آرزو مند ہوا۔ اپنے اس دوست کو میں نے کبھی جوان دیکھا تھا لیکن گردش روزگار سے وہ اب بوڑھا ہوگیا تھا اور اس کا تیرکمان اور اس کا سرخ رنگ’ سب کچھ‘ زردی کا شکار تھا۔ گویا ہتھیار اب اس کے لئے بیکار تھے اور چہرے کی پہلے جیسی چمک بھی نہ رہی تھی۔اس کا سر بالوں کی برف یعنی سفیدی سے،سفید پہاڑ کی مانند ہوچکا تھا جبکہ بڑھاپے کی برف سے اس کے چہرے پر پانی بہہ رہا تھا۔ اب آسمان نے گویا قوت سے اس پر غلبہ پالیا تھا اور اس کی دلیری و مردانگی کا پنجہ مروڑ دیاتھا۔ زمانے نے اس کے سر سے غرور و تکبر کا خاتمہ کردیا تھا اور ناتوانی و ضعف کے باعث اب اس کا سر زانو پر جھکا ہوا تھا، میں نے اس کی یہ حالت دیکھ کر اس سے کہا کہ ’’اے شیر کا شکار کرنے والے سردار! کس نے تجھے بوڑھی بلی کی طرح فرسودہ کردیا؟‘‘ میری یہ بات سن کر وہ ہنس دیا اوربولا کہ ’’میں نے تاتار کی جنگ کے بعد سے جنگ جوئی کا خیال دل سے نکال دیاہے۔ میں نے دیکھا کہ وہاں کی زمین بانسوں کے جنگل کی مانند نیزوں سے اٹا اٹ تھی، جبکہ جھنڈے اس میں آگ کی صورت نظر آرہے تھے۔ میں نے دھوئیں کی مانند جنگ کا غبار اٹھایا۔ (بات یہ ہے کہ) جب دولت ہی پاس نہ ہو تو تہوّر (شجاعت و دلیری) کا کیا فائدہ۔میں وہ ہوں جو اس سے پہلے جب حملہ آور ہوتا تو نیزے کے ساتھ انگلی سے انگوٹھی اتار لیا کرتا تھا، لیکن جب میرے مقدر نے میرا ساتھ نہ دیا تو انہوں (دشمن) نے انگوٹھی کی طرح میرا محاصرہ کرلیا۔ چنانچہ میں نے وہاں سے بھاگ جانا غنیمت سمجھا،اس لئے کہ ایک نادان ہی اپنے مقدر و بخت سے پنجہ آزمائی کرتا ہے۔ یعنی میں چونکہ دشمن سے مقابلہ کرنے کے قابل نہ رہا تھا، اس لئے میں نے اپنے گریز کو مقدر سمجھ کر یہ راہ اختیار کی۔(جاری ہے)

source

Read Urdu column Saber Qanayt Qismet Sabit Qadmi by Dr Abdul Qadeer khan

Leave A Reply

Your email address will not be published.