سینس اوف انٹیتلمنٹ – علی معین نوازش

ali-moeen-nawazish

چند سال پہلے دنیا کے کچھ ممالک میں ٹیکس حکام اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ٹیکس نادہندگان کے خلاف کارروائی عمل میں لانے کے لئے ایک نئی چیز دریافت کی۔ ایسے افراد جن پر ٹیکس چوری، بڑی کرپشن یا کسی اور بےضابطگی کا الزام لگا ہوا تھا لیکن اُن کے خلاف شواہد اکٹھے نہیں ہو رہے تھے، اُن کو پکڑنے کے لئے سوشل میڈیا کا استعمال کیا گیا۔ ایسے افراد سوشل میڈیا پر خود تو اپنی دولت اور طرزِ زندگی کی کم ہی رونمائی کرتے تھے مگر اُن کے بچے اِس خودنمائی سے باز نہیں آتے تھے، اِس لئے اُن کے بچوں کے سوشل میڈیا اکائونٹس کی مانیٹرنگ شروع کر دی گئی۔

کچھ کیس ایسے تھے جن میں اکثر افراد کے بچے ملک سے باہر مہنگی یونیورسٹیوں میں پڑھ رہے ہیں، مہنگی جگہ پر رہ رہے ہیں، مہنگے مہنگے کپڑے خرید رہے ہیں اور مہنگی گاڑیاں چلا رہے ہیں۔ کرپشن کے مختلف کیسز میں ملوث افراد کے خلاف اُنہی کے بچوں کے سوشل میڈیا اکائونٹس سے ٹھوس شواہد اکٹھے کرکے ان کے خلاف کارروائی عمل میں لائی گئی۔

حیران کن بات یہ ہے کہ ایسے افراد کے بچوں کی مانیٹرنگ نقلی اکائونٹ بنا کر یا اُن سے جھوٹی دوستی کر کے نہیں کی گئی کیونکہ ترقی یافتہ ممالک میں بالخصوص ایسا کرنا قانون کے خلاف ہے، یہ سب چیزیں اِن اشرافیہ کے بچوں نے خود پوری دنیا کو دکھانے کے لئے اپنے سوشل میڈیا اکائونٹس پر پبلک کر کےلگائی ہوئی تھیں۔ انگریزی میں اِسے "Sense Of Entitlement” کہتے ہیں یعنی حق داریت کا احساس۔ ایسے لوگ سمجھتے ہیں کہ ہر چیز پر ہمارا حق ہے اور ہم جس طرح چاہیں اُن کا دکھاوا کر سکتے ہیں۔ وہ غلط طریقے سے کمائی گئی دولت اور اپنے دوسرے غلط کارناموں کو جرم نہیں بلکہ اِسے اپنا حق سمجھتے ہیں۔

یہ سوچ صرف پیسوں تک ہی محدود نہیں ہے۔ ایئرپورٹ پر پروٹوکول سے جو لوگ لائن توڑ دیتے ہیںیا سرکاری دفاتر میں بالخصوص لائسنس یا شناختی کارڈ بنوانے کے لئے وی آئی پی ٹریٹمنٹ چاہتے ہیں، وہ اِسے اپنا حق بھی سمجھتے ہیں اور اِس پر فخر بھی کرتے ہیں۔ شاید ہی کوئی ہو جو یہ سوچتا ہو کہ میں جو کر رہا ہوں وہ غلط ہے، ورنہ وہ ایسا کرے ہی کیوں؟

گزشتہ دنوں سابق گورنر سندھ اور مسلم لیگ(ن) کے رہنما محمد زبیر صاحب کی بیٹی، جو پی ٹی آئی کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر خزانہ اور موجودہ وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی ، ترقی و اصلاحات اسد عمر صاحب کی بھتیجی بھی لگتی ہیں، کی اُن کے خاوند اور خاندان کے دیگر افراد کے ہمراہ کورونا ویکسین لگواتے ہوئے تصویریں سامنے آئیں۔ یہ تصاویر چھپ کر نہیں بنائی گئیں اور نہ ہی اُن کی مرضی کے خلاف سوشل میڈیا پر شائع کی گئیں بلکہ اُنہوں نے خود اپنے سوشل میڈیا اکائونٹس سے شیئر کی ہیں۔ کیا اُنہیں اور اُن کو ویکسین فراہم کرنے والوں کو معلوم نہیں تھا کہ اِس وقت ویکسین صرف فرنٹ لائن ہیلتھ ورکر اور بوڑھوں کے لئے دستیاب ہے بلکہ مطلوب مقدار کے مقابلے میں قدر کم ہے۔ کیا اُن کو یہ سمجھ بوجھ نہیں تھی کہ ہم جو ویکسین لے رہے ہیں، وہ کسی ڈاکٹر جو کورونا کے مریضوں کا علاج کرتا ہے یا کسی بوڑھے شہری جو کہ بےبس ہے، کا حق مار کر لے رہے ہیں۔ اگر ایک ڈاکٹر کورونا کی وجہ سے بیمار ہو گیا تو کتنے مریضوں کا علاج نہیں ہو پائے گا؟ اگر خدا نخواستہ وہ ڈاکٹر جو اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر کورونا کے مریضوں کا علاج کرتا ہے، ویکسین نہ لگنے کی وجہ سے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا تو کیا یہ انصاف ہے؟

دراصل ہماری اشرافیہ ایسی ناانصافیوں کو اپنا حق سمجھتی ہے۔ اُسے یہ احساس ہی نہیں ہے کہ وہ کسی زیادہ ضرورت مند اور مستحق انسان کا حق مار رہی ہے اور اتنی "Sense Of Entitlement”کہ اِس حق تلفی کو نہ صرف غلط نہیں سمجھا جارہا بلکہ دنیا کو دکھانے کے لئے سوشل میڈیا پر بھی لگایا جا رہا ہے۔ یہی سوچ مختلف جگہوں پر پاکستان کی ترقی میں رکاوٹ بنتی رہی ہے۔

ہماری اشرافیہ صرف اپنا سوچتی ہے، اُنکی یہ خودغرضی کورونا کو ختم کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ بنے گی۔ میں نے پچھلے کالم میں بھی ذکر کیا تھا کہ سب محفوظ ہوں گے تو ہم محفوظ ہوں گے۔ ہماری اشرافیہ دوسروں کی حق تلفی کرکے اپنے آپ کو ویکسین لگوا لے گی اور پھر حقداروں کو ویکسین لگوانے کے لئے کوئی خاص پروا نہیں کرے گی، اِس طرح کورونا ختم نہیں ہوگا بلکہ اُس کی نئی نئی شکلیں سامنے آئیں گی جن کے لئے مزید نئی ویکسینز کی ضرورت پڑے گی۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ تو وہ کیس ہے جو سامنے آگیا اور کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جنہوں نے چوری چھپے فرنٹ لائن ہیلتھ ورکروں کا حق مار کر ویکسین بھی لگوا لی ہیں اور اُن کے خلاف کوئی کارروائی بھی عمل میں نہیں آئے گی۔ اِن تصاویر کے سامنے آنے کے بعد ویکسین فراہم کرنے والا افسر تو معطل ہو جائے گا لیکن جنہوں نے ویکسین لگوائی اُن کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں آئے گی۔ شاید آج بھی وہ لوگ جو ویکسین لگوا چکے ہیں یہی سوچ رہے ہوں گے کہ ہم نے اتنا بھی بڑا گناہ کیا کر دیا ہے؟ اُن کی یہی "Sense Of Entitlement” ہمارا بہت بڑا المیہ ہے۔

Must Read Urdu column Sense Of Entitlement By Ali Moeen Nawazish
Source: Jang

Leave A Reply

Your email address will not be published.