سپریم کورٹ: ایک اور بغاوت کیس کی گونج – اوریا مقبول جان

Orya Maqbool

سپریم کورٹ میں جب سپیکر کے فیصلے کے خلاف دلائل تقریباً ختم ہو گئے اور وکلاء عدالت کو ایسا کوئی راستہ نہ دکھا سکے جسے اختیار کر کے سپریم کورٹ اس دیوار کو پھلانگ سکے، جو آئین کے آرٹیکل 69 نے پارلیمنٹ کی بالادستی کے قیام کے لئے سپیکر کے اقدامات کے گرد تعمیر کر رکھی ہے۔ بے بسی کے اس لمحے میں بحث کا رُخ ایک خطرناک موڑ اختیار کر گیا اور عدالت کے سامنے وزیر قانون کا وہ الزام زیر بحث آ گیا جس میں پارلیمنٹ کے سامنے ایک عالمی سازش کا ذکر تھا۔ اس کے ساتھ ہی سپریم کورٹ میں ریاست سے وفاداری کے مسلمہ اُصول پر مبنی آرٹیکل 5 پر بحث کا دروازہ کھل گیا۔ عدالتوں میں جب بھی ریاست سے وفاداری کے قوانین کا یہ مہیب پھاٹک کھلا ہے، وہاں سے ہمیشہ ایک ایسا عفریت ضرور برآمد ہوا ہے جس نے کسی ایک گروہ یا پارٹی کو ضرور کھایا ہے۔ عوامی لیگ پر ’’اگرتلہ‘‘ سازش کیس کے بعد پابندی لگی اور نیشنل عوامی پارٹی لندن سازش کیس کے بعد کالعدم قرار دی گئی۔ وفاداری اور غدّاری کے اس نئے منظرنامے میں اس خط کی گونج سپریم کورٹ میں سنائی دی گئی جو وزیر اعظم عمران خان نے پہلے 27 مارچ 2022ء کو اسلام آباد کے جلسے میں لہرایا اور پھر 31 مارچ کو اسے نیشنل سکیورٹی کمیٹی کے سامنے پیش کیا۔ کمیٹی کو خط کے متعلق قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف نے بریفنگ دی۔ سلامتی کمیٹی کے اس 37 ویں اجلاس میں بری، فضائی اور بحری افواج کے سربراہان اور وزرائے کرام نے شرکت کی۔ یہ خط جو دراصل امریکی دفتر خارجہ کے ایک اہلکار ڈونلڈ لو (Donald Lu) کی پاکستانی سفیر اسد مجید کے ساتھ ہونے والی ایک ایسی رسمی (Formal) اور سرکاری (Official) گفتگو کا خلاصہ ہے، جسے اس پاکستانی سفیر نے امریکی دفتر خارجہ کی خواہشات کی تعمیل کرتے ہوئے حکومتِ پاکستان کو تحریر کیا ہے۔

سفارتی آداب کا تقاضہ یہ ہوتا ہے کہ ایسی ملاقات جسے عموماً ون آن ون (One on one) کہا جاتا ہے دراصل ہرگز اکیلی اور تنہا نہیں ہوتی، خواہ وہ دو سربراہوں کے درمیان ہی کیوں نہ ہو۔ دونوں جانب سے ایک ایک شخص موجود ہوتا ہے جو گفتگو کو تحریر کرتا (Noting) جاتا ہے۔ کمیٹی نے اس خط کو رسمی مکتوب (Formal Communication) قرار دیا اور اُسے پاکستان کے اندرونی معاملات میں واضح مداخلت (Blatent interference in the National Affairs) قرار دیا۔ کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ امریکہ سے اس حرکت پر احتجاج کرتے ہوئے سخت ردّعمل (Demarche)کا اظہار کیا جائے، اسی رات امریکی سفارت کار کو بلا کر ایک مراسلہ تھماتے ہوئے ناراضگی کا اظہار بھی کر دیا گیا۔ وزیر اعظم عمران خان نے اس خط کو پارلیمنٹ کی نیشنل سکیورٹی کمیٹی کے سامنے پیش کرنے کے لئے اس کا اجلاس بلا لیا۔ اس کمیٹی میں حکومت اور اپوزیشن کے ممبران موجود ہوتے ہیں، لیکن اپوزیشن نے اس اجلاس کا بائیکاٹ کیا۔ سپریم کورٹ میں چار اپریل 2022ء کو بحث کے اختتام پر چیف جسٹس نے اس بات پر حیرت کا اظہار کیا کہ اپوزیشن نے اس اجلاس میں شرکت کیوں نہ کی اور ان سے وضاحت طلب کر لی کہ انہوں نے ایسا کیوں کیا؟ اس دن یہ اہم مقدمہ اس خطرناک گلی میں داخل ہو گیا جہاں غدّاری اور وفاداری کے کئی بار فیصلے ہوتے رہے ہیں۔ آخری دفعہ یہ دروازہ ایبٹ آباد میں اُسامہ بن لادن کی امریکیوں کے ہاتھوں شہادت کے بعد اس وقت کھلا کہ جب پاکستان میں متعین امریکی سفیر حسین حقانی سے ایک سازش منسوب کی گئی کہ اس نے اُسامہ بن لادن کے ایبٹ آباد والے کمپائونڈ پر حملے کے بعد پاکستان کے صدر آصف زرداری کے کہنے پر ایک ایسا ’’میمو‘‘ تحریر کیا ہے جس میں امریکی حکومت سے یہ درخواست کی گئی تھی کہ فوج اس واقعہ کا بہانہ بنا کر سول حکومت کا تختہ اُلٹنا چاہتی ہے اور امریکہ مداخلت کر کے سول حکومت کو بچائے۔ یہ میمو امریکی افواج کے جائنٹ چیف آف سٹاف مائیکل مولن (Michael Mullen) کو تحریر کیا گیا تھا۔ اس میمو کو حسین حقانی کے دوست منصور اعجاز نے افشاء کر دیا اور امریکہ کے سفارتی معاملات کے حوالے سے سب سے معتبر رسالے ’’فارن پالسی‘‘ (Foreign Policy) نے یہ میمو چھاپ بھی دیا۔

میمو کے مطابق اگر امریکی حکومت آصف زرداری کی سول حکومت کو بچاتی ہے تو پھر وہ اُسامہ بن لادن کو محفوظ پناہ گاہ دینے کے معاملے میں فوج اور آئی ایس آئی کے خلاف بھر پور انکوائری کرے گی اور امریکی عوام کے سامنے ان تمام کرداروں کو بے نقاب کرے گی۔ ایسا کرنے کے بعد پاکستان میں موجود ’’القاعدہ‘‘ کی بقیہ قیادت اور طالبان رہنمائوں جن میں ایمن الظواہری، مُلا محمد عمر اور سراج الدین حقانی شامل ہیں، انہیں پکڑ کر حوالے کرنے یا قتل کرنے کے لئے آپریشن کرے گی۔ حکومت کا یہ عمل دبائو کے تحت نہیں بلکہ اس کی اپنی شدید خواہشات کا ترجمان (Carte Blanche) ہو گا اور اس کا بنیادی مقصد پاکستان کی سرزمین سے ایسے غلیظ کرداروں کو جڑ سے اُکھاڑنا ہو گا۔ اس مقصد کے حصول کے لئے سیاسی حکومت اپنی تمام توانائیاں بروئے کار لائے گی۔ خط میں یہ بھی تحریر کیا گیا تھا کہ پاکستان کی آئی ایس آئی کو اُسامہ بن لادن کے آپریشن کے بعد شدید خوف لاحق ہو چکا ہے کہ امریکہ کی جدید ٹیکنالوجی ’’سٹیلتھ‘‘ (Stealth) کی وجہ سے امریکی خاموشی سے پاکستان کی فضائی حدود میں داخل ہو کر کامیابی سے واپس بھی جا سکتے ہیں۔ اس لئے ان کے نزدیک اب پاکستان کے ایٹمی اثاثے نشانے پر ہیں۔

سیاسی حکومت آپ کی مدد سے فوج، امریکہ اور سیاسی حکومت کے ساتھ مل کر ایک ایسا فریم ورک تیار کرے گی جس کے تحت پاکستان کے ایٹمی اثاثے کھلے اور واضح ہوں اور دُنیا کی مناسب کنٹرول میں آ جائیں۔ یہ حکومت جو نئی سکیورٹی ٹیم بنائے گی وہ آئی ایس آئی کے سیکشن ایس (s) کو ختم کر دے گی، جس کے تحت وہ طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے ساتھ تعلقات استوار کرتی ہے۔ ایسا کرنے سے افغانستان میں قائم حکومت کے ساتھ تعلقات بہتر ہو جائیں گے۔ سول حکومت بھارت کے ساتھ 2008ء کے ممبئی حملے کے معاملے میں بھی تعاون کرے گی اور ایسے تمام کرداروں کو حوالے بھی کرے گی جنہوں نے پاکستانی سرزمین پر بیٹھ کر بھارت کے خلاف یہ سارا کھیل رچایا۔ امریکی اخبار گارڈین (Guardian) نے اس سکینڈل کی گہرائی پر مضمون تحریر کیا اور کڑیاں ملاتے ہوئے بتایا کہ امریکہ میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی نے ایک امریکی بزنس مین منصور اعجاز کو یہ میمو دیا تھا تاکہ وہ اسے مائیکل مولن تک پہنچائے اور وہ یہ سب ’’باس‘‘ یعنی آصف زرداری کے کہنے پر کر رہا ہے۔ 28 نومبر 2011ء کو نواز شریف کالا سوٹ پہنے ایک ایڈووکیٹ کے ’’روپ‘‘ میں سپریم کورٹ جا پہنچے اور اس سازش کے خلاف ایک پٹیشن دائر کر دی جس کے مدعا علیہ، صدر آصف زرداری، امریکہ میں پاکستانی سفیر حسین حقانی، آرمی چیف اشفاق پرویز کیانی، آئی ایس آئی کے سربراہ احمد شجاع پاشا اور سیکرٹری خارجہ سلمان بشیر تھے۔ نواز شریف نے لکھا کہ ایک محب ِ وطن پاکستانی کی حیثیت سے اس غدّارانہ سازش سے انہیں سخت دُکھ اور تکلیف پہنچی ہے۔ اس وقت سپریم کورٹ کے موجودہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس تھے جہاں وہ اسی میمو گیٹ کے سلسلے میں بیرسٹر جاوید اقبال کی ایک درخواست سن رہے تھے جس میں استدعا کی گئی تھی کہ حسین حقانی پر غدّاری کا مقدمہ قائم کیا جائے۔ (جاری)

Source: 92 news
Must Read Urdu column Supreme Court ik aur Baghwat Case ki Gonjh By Orya Maqbool jan

Leave A Reply

Your email address will not be published.