ٹرانسپورٹ کا مسئلہ بھی حل ہو سکتا ہے – جاوید چودھری

www.facebook.com/javed.chaudhry

ٹرانسپورٹ ہمارے ملک کا بڑا مسئلہ ہے‘ یہ مسئلہ ملک میں توانائی کا بحران بھی پیدا کر رہا ہے‘ ہم دنیا میں فی کس پٹرول خرچ کرنے والی بڑی قوموں میں شمار ہوتے ہیں‘ دنیا کے بے شمار ممالک نے معمولی تردد سے اس مسئلے پر قابو پا لیا مثلاً آپ ایران کی مثال لے لیجیے‘ تہران شہر میں 30 لاکھ گاڑیاں ہیں‘ یہ گاڑیاں صبح اور شام کے وقت پورے شہر کی ٹریفک جام کر دیتی تھیں۔

تہران کی کارپوریشن نے اس کا بہت دلچسپ حل نکالا‘ اس نے شہر کی تمام گاڑیوں کو دو حصوں میں ( اے اور بی یا آڈ اور ایون) نمبروں میں تقسیم کیا اور پابندی لگا دی‘ ایک دن میں صرف اے نمبر کی گاڑیاں سڑک پر آئیں گی اور دوسرے دن بی نمبر کی گاڑیاں‘ اس اقدام سے تہران کی ٹریفک یک لخت آدھی رہ گئی اور ٹریفک کا مسئلہ بھی حل ہو گیا۔

پٹرول اور سی این جی کی کھپت بھی آدھی ہو گئی اور پبلک ٹرانسپورٹ کے استعمال کا رجحان بھی بڑھ گیا اور لوگوں نے آمدو رفت کے لیے ہمسایوں کے ساتھ تعلقات بھی ٹھیک کر لیے۔آپ یورپ کے 25 ممالک کی مثال بھی لیجیے‘ یورپ میں صبح آٹھ بجے ٹریفک جام رہتی تھی کیونکہ سڑک پر اسکول اور دفتروں دونوں کا رش ہو جاتا تھا‘ 25 ممالک کی حکومتوں نے اسکولوں اور دفاتر کی ٹائمنگ میں بتدریج ایک گھنٹے کا فرق پیدا کر دیا اور یوں سڑکوں پر ٹریفک کا رش کم ہو گیا۔
ہم بھی یہ مسائل اسی آسانی سے حل کر سکتے ہیں‘ ملک میں ٹرانسپورٹ قطعی کوئی مسئلہ نہیں‘ ہمارے ملک میں صبح آٹھ سے دس بجے کے دوران چار کروڑ لوگ سڑکوں پر آتے ہیں اور یہ لوگ کسی نہ کسی طرح اپنی اپنی منزلوں پر بھی پہنچتے ہیں‘ اس کا یہ مطلب ہوا ملک میں ٹرانسپورٹ موجود ہے‘ ہم نے بس اس میں ترتیب پیدا کرنی ہے تا کہ عام شہریوں کی تکالیف کم ہو سکیں۔

ہم اس سلسلے میں چند اقدامات کر سکتے ہیں‘ ہمارے ملک میں ذاتی سواری جنون کی شکل اختیار کر چکی ہے‘ ہم چپڑاسی سے لے کر سیٹھ تک سب اپنی گاڑی خریدنا چاہتے ہیں‘ یہ جنون اگر ایک گاڑی تک محدود ہوتا تو درست تھا کیونکہ سواری ترقی اور خوشحالی کا سمبل ہوتی ہے لیکن اب ملک میں ہر شخص کو دوسری اور تیسری گاڑی کی ضرورت پڑگئی ہے‘ ایک اپنے لیے‘ دوسری بچوں کے لیے اور تیسری مہمانوں یا ایمرجنسی کے لیے۔

ہم اگر دوسری اور تیسری گاڑی پر ٹیکس بڑھا دیں اور یہ آمدنی ماحولیات پر خرچ کریں تو اس سے گاڑیوں کا جنون بھی کم ہو جائے گا‘ ماحولیاتی آلودگی بھی کم ہو جائے گی اور ٹریفک بھی کنٹرول ہونے لگے گی‘ ملک کے سرکاری اور پرائیویٹ ادارے (پولیس‘ اسپتال اور فائر بریگیڈ کے علاوہ) ملازمین کو گاڑیاں دینا بند کر دیں‘ ٹرانسپورٹ پول میں پانچ گاڑیاں موجود ہوں‘ یہ صرف ایمرجنسی میں استعمال ہوں‘ تمام ادارے ملازمین کو پک اینڈ ڈراپ سروس دیں۔

اس کے لیے اچھی کوچز‘ بسیں اور وینز خریدی جائیں اور چپڑاسی سے سیکریٹری تک ان کوچز میں دفتر آئیں‘ اس سے دفتروں کے اندر ڈسپلن قائم ہو گا‘ دفتر وقت پر لگیں گے‘ وقت پر بند ہوں گے اور سڑکوں سے پریشر بھی کم ہو جائے گا‘ تمام پرائیویٹ تعلیمی اداروں کو اسٹوڈنٹس کی پک اینڈ ڈراپ سروس پر مجبور کیا جائے‘ پرائیویٹ اسکول‘ کالج اور یونیورسٹیاں بینکوں کے ذریعے بسیں اور کوچز لیں یا پھر پرائیویٹ ٹرانسپورٹ کمپنیوں کے ساتھ معاہدے کریں اور ان کے طالب علم صرف اور صرف ان گاڑیوں پر تعلیمی ادارے آئیں۔

اسلام آباد کے ایک پرائیویٹ اسکول کے گیٹ پر روزانہ اڑھائی ہزار گاڑیاں آتی ہیں‘ یہ اڑھائی ہزار گاڑیاں ٹریفک کے مسائل بھی پیدا کرتی ہیں اور پٹرول بھی ضایع ہوتا ہے‘ ان کی جگہ اگر بسیں ہوں گی تو پچاس بسیں بڑی آسانی سے اسکول کی ٹرانسپورٹ کا بوجھ اٹھا لیں گی‘ اس سے بچوں کی سیکیورٹی کا ایشو بھی حل ہو جائے گا‘والدین کی مشقت بھی کم ہو جائے گی اور ٹرانسپورٹ اور توانائی کی بچت بھی ہو گی‘ ملک میں ٹیکسیوں کے رجحان میں بھی اضافہ کیا جائے۔

ملک میں ریڈیو کیب کے بزنس کو دس سال کے لیے ٹیکس فری کر دیا جائے‘ کیب کمپنیاں تین قسم کی ٹیکسیاں متعارف کروائیں‘ سستی‘ درمیانی اور مہنگی‘ حکومت ٹیکسیوں کو آدھی قیمت میں پٹرول فراہم کرے‘ اس سے کرائے بھی کنٹرول ہو جائیں گے اور لوگ ذاتی سواری کی دوڑ سے بھی نکل جائیں گے‘ آپ اس سلسلے میں دبئی‘ لندن اور نیویارک کی مثال لے سکتے ہیں‘ ان تینوں شہروں میں ٹیکسیاں ٹرانسپورٹ کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں اور ہزاروں پڑھے لکھے اور امیر لوگ فالتو وقت میں ٹیکسیاں چلاتے ہیں۔

حکومت کو پبلک ٹرانسپورٹ مثلاً انڈر گراؤنڈ میٹرو‘ میٹرو بس اور مانوریل کو فوری اہمیت دینی چاہیے لیکن جب تک یہ منصوبے شروع نہیں ہوتے حکومت اس وقت تک شہروں میں موجود وینوں اور بسوں کو ’’اسٹریم لائین‘‘ کر لے۔ آپ راولپنڈی کی مثال لیجیے‘ راولپنڈی شہر میں دو ہزار پرائیویٹ ویگنیں ہیں‘ حکومت چھوٹا سا ادارہ بنائے‘ ان ویگنوں کو روٹس کے لحاظ سے دوتین قسم کے رنگ کروائے‘ ان کے ایک سے لے کر دو ہزار تک نمبر لگوائے‘ ان کے ڈرائیوروں اور کنڈیکٹرز کے لیے یونیفارم لازم قرار دے۔

ہر ایک کلومیٹر کے بعد بس اسٹاپ بنائے‘ ان بس اسٹاپوں پر ایسی ڈیجیٹل اسکرین لگائے جس پر اگلی ویگن کا نمبر اور وقت ڈسپلے ہو رہا ہو‘ بس اسٹاپوں پر ٹکٹ مشین لگا دے‘ مسافر بس اسٹاپ سے ٹکٹ لیں‘ یہ ٹکٹ کنڈیکٹر کو دے دیں اور کنڈیکٹر شام کے وقت دن بھر کے ٹکٹ واپس کر کے سینٹرل پوائنٹ سے رقم لے لے‘ ویگن کی صفائی‘ سیٹوں کے کشن‘ دروازوں اور کھڑکیوں کی روزانہ دیکھ بھال لازم قرار دے دی جائے اور ویگن میں سیٹوں سے زیادہ مسافر نہ بٹھائے جائیں تو یہ مسئلہ بڑی آسانی سے حل ہو جائے گا۔

ویگن جب اپنے نمبر اور وقت پر چلے گی‘ مسافر ڈیجیٹل اسکرین پر دیکھ رہا ہو گا اگلی وین صرف ایک منٹ بعد اسٹاپ پر پہنچ جائے گی اور دو وینوں کے درمیان صرف ایک منٹ کا فاصلہ ہے تو مسافروں اور ڈرائیوروں دونوں کی افراتفری ختم ہو جائے گی‘ ٹکٹ کی وجہ سے کنڈیکٹر مالک کی رقم نہیں مار سکے گا‘ ڈسپلن کی وجہ سے ویگنوں کے پھیروں میں اضافہ ہو جائے گا اور ویگنوں کی صفائی ستھرائی اور ٹائمنگ کی وجہ سے مڈل کلاس اور شریف لوگ بھی ویگنوں میں بیٹھ سکیں گے‘ ملک سے منہ مانگے کرایوں کا ایشو بھی ختم ہو جائے گا اور حکومت آسانی سے کرایوں میں ردوبدل بھی کر سکے گی‘ حکومت اس ماڈل کو ملک کے دیگر بڑے شہروں فیصل آباد ‘ سیالکوٹ‘ ملتان‘حیدرآباد‘ سکھر‘ کوئٹہ اور پشاور تک پھیلا سکتی ہے‘ ان تمام شہروں میں ویگنوں کو اسی ماڈل پر لایا جا سکتا ہے ‘اس اقدام سے ٹریفک کا مسئلہ بڑی حد تک حل ہو جائے گا۔

دنیا میں ریل سب سے بڑا اور محفوظ ترین سفر ہے لیکن یہ ذریعہ بدقسمتی سے پاکستان میں شرمناک حد تک زوال پذیر ہے اور ہمارے پاس ریل کو پاؤں پر دوبارہ کھڑا کرنے کے لیے سرمایہ بھی نہیں مگر ہم اس کے باوجود سرمائے کے بغیر اسے ازسر نو استوار کر سکتے ہیں‘ ہم ریل کے مختلف سیکشن پرائیویٹائز کر دیں‘ ملکی اور غیر ملکی کمپنیاں ریل کے مختلف سیکشنز میں سرمایہ کاری کریں‘ حکومت صرف ٹکٹ پر سولہ فیصد سیلز ٹیکس وصول کرے تو یوں ریل دوبارہ ٹریک پر آجائے گی‘ ہم بتدریج اجناس‘ کھانے پینے کی اشیاء اور پٹرول کی نقل و حمل ریلوے پر شفٹ کر سکتے ہیں‘ ہم اگر صرف پٹرول اور ڈیزل کی نقل و حمل ریلوے پر شفٹ کر دیں تو اس سے بھی ریلوے اپنے قدموں پر کھڑا ہو جائے گا۔

ہم بھارت کی طرح یہ قانون بھی بنا سکتے ہیں کوئی کمپنی ایک خاص وزن سے زیادہ کا سامان ٹرک کے ذریعے ایک شہر سے دوسرے شہر نہیں لے جا سکتی‘ یہ قانون بھی تجارتی کمپنیوں کو ریلوے پر انحصار کے لیے مجبور کر دے گا‘ میں نے چیک ری پبلک میں اسٹوڈنٹس ٹرین دیکھی‘ یہ ٹرین چیک کے ایک عام بزنس مین نے چلائی تھی‘ اس نے عدالت میں طویل مقدمہ لڑ کر اس ٹرین کی اجازت لی‘ نوجوان بالخصوص اسٹوڈنٹس کے لیے ٹرین چلائی اور یہ ٹرین آہستہ آہستہ پورے چیک ریلوے کو ٹریک پر لے آئی‘ ہم بھی اس تجربے سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

میں اکتوبر2017ء میں دمشق گیا تھا‘میں نے وہاں ایک دلچسپ مشاہدہ کیا‘ دمشق کے لوگ مصروف وقت میں مصروف بازاروں اور مصروف شاہراؤں پر کسی بھی جگہ کسی بھی گاڑی کے پیچھے اپنی گاڑی پارک کر دیتے ہیں لیکن اپنا موبائل نمبرونڈاسکرین پرلگا جاتے ہیں‘ اگلی گاڑی کا مالک آتا ہے‘ پچھلی گاڑی کے ڈرائیور کو فون کرتا ہے اور وہ آ کر اپنی گاڑی ہٹا لیتا ہے اور یوں دونوں کا مسئلہ حل ہو جاتا ہے‘ یہ بھی ایک دلچسپ تجربہ ہے‘ اس سے پارکنگ کا مسئلہ بڑی حد تک حل ہو سکتا ہے کیونکہ دمشق شہر میں پارکنگ کا کوئی مسئلہ نہیں ہے‘ میں پچھلے ہفتے کینیڈا گیا تھا‘ میں نے ٹورنٹو شہر میں ایک دلچسپ چیز دیکھی‘ٹورنٹو شہرمیںفرسٹ لین کے اوپر دواور اس سے اوپر لکھا ہوا تھا۔

اس کا مطلب ہے اگر گاڑی کے اندر دو یا اس سے زیادہ مسافر ہیں تو وہ فرسٹ لین استعمال کرسکتے ہیں اور اگرگاڑی میں صرف ایک شخص ہے تووہ فرسٹ لین استعمال نہیں کر سکتا‘ ہم بھی فرسٹ لین زیادہ مسافروں کے لیے مختص کر دیں‘جس گاڑی میں تین یااس سے زیادہ مسافر ہوں وہ فرسٹ لین استعمال کریں اور جس گاڑی میں ایک یا دو لوگ ہوں وہ دوسری یا تیسری لین استعمال کریں‘اس سے بھی ٹرانسپورٹ کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے‘یورپ کے مختلف ملکوں کے مختلف شہروں میں ہر سال ٹرانسپورٹ لیس ڈے منایا جاتا ہے‘ اس دن کوئی گاڑی سڑک پر نہیں آتی‘ اس سے پولوشن میں بھی کمی ہوتی ہے اور اوئیرنیس میں بھی اضافہ ہوتا ہے‘ہم بھی اگر سال میں تین چار مرتبہ ٹریفک فری ڈے منانا شروع کر دیں تو اس سے بھی پولوشن اور ٹرانسپورٹ میں نمایاں فرق پڑے گا۔

Source
Must Read urdu column Transport ka Masla bhi hul ho sakta hai By Javed Chaudhry

Leave A Reply

Your email address will not be published.