تمہاری یاد کے جب زخم بھرنے لگتے ہیں – حسن نثار

hassan-nisar

یوں تو پوری زندگی پر شور، ہنگامہ خیز ، دلچسپ، ایڈونچرس اور خوب صورت لوگوں سے بھرپور رہی لیکن یونیورسٹی کے دن دل و دماغ پر نقش ہو کر رہ گئے۔ جب بطور انڈر گریجویٹ آنرز میں داخلہ لیا تو عمر سولہ سال سے کچھ اوپر تھی۔ اللہ بخشے والد، حفیظ خان کو اور مجھے اپنی نیلے رنگ کی خوبصورت ’’برلینا‘‘ میں ہاسٹل چھوڑنے آئے جس کا نمبر حفیظ خان نے برسوں بعد اپنے مقبول انگریزی کالم کے ذریعے مجھے یاد دلایا۔ ’’ایل آر 16‘‘۔ تب لائل پور کا نام چوری نہیں ہوا تھا۔ عجب اتفاق کہ 16 پلس کے دو لڑکے اور گاڑی کا نمبر بھی 16۔ حفیظ خان تب بھی 6 فٹ کا وجیہہ نوجوان اور میں ساڑھے 5 فٹ کا۔ چند روز ہم دونوں نے ایک ہی کمرہ شیئر کیا تو تاثر یہ ابھرا کہ میں حفیظ خان کا چھوٹا بھائی ہوں جو اسے سیٹل کرکے واپس چلا جائے گا لیکن جب میں کمرہ نمبر 104 میں سیٹل ہوا تو سب جان گئے کہ میں بھی ’’معزز‘‘انڈر گریجویٹ ہوں۔ شروع حفیظ خان سے ہی کرتے ہیں جو بعد ازاں ’’ڈمپل خان‘‘ کے نام سے مقبول ہو کر، جہانگیر بدر یعنی ’’جے بی‘‘ کو شکست دے کر سٹوڈنٹس یونین کا صدر منتخب ہوا اور جاوید ہاشمی سیکرٹری بن گیا۔ آج ان دوستوں کو ان کے ’’نک نیمز‘‘ سے یاد کرنے کو جی چاہتا ہے۔

’’دن جو پکھیرو ہوتے پنجرے میں میں رکھ لیتا‘‘

یا پھر یوں سہی . . . . . . .

اجالے اپنی یادوں کے ہمارے ساتھ رہنے دو

نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہو جائے

چند ہفتوں میں زندگی بھر کے بندھن بندھ گئے ۔ ایسے رشتے جنہیں موت بھی نہیں توڑ سکتی ورنہ میں آج انہیں اس طرح یاد نہ کر رہا ہوتا۔

اک یاد ہے کہ دامنِ دل چھوڑتی نہیں

ایک بیل ہے جو لپٹی ہوئی ہے شجر کے ساتھ

6فٹ 2انچ کا سرخ و سفید یوسف زمان شنواری یاد آتا ہے جو بچوں کی طرح سادہ اور معصوم تھا۔ جوانی میں رخصت ہوگیا۔ ہم سب اسے پیار سے ’’ڈِگلو‘‘کہتے تھے اور کیوں؟ مجھے آج تک معلوم نہیں۔ آج بھی اسے ’’ڈگلو‘‘ کہہ کر ہی یاد کرتے ہیں۔ سردار رجب علی پتافی کو چلتا دیکھ کر نجانے سب کو ’’فوکر‘‘ کیوں یاد آتا تھا سو یہ نام ہٹ ہوگیا۔ اس کا دیا ہوا سو سال سے بھی پرانا ایک مشکیزہ آج بھی میرے پاس محفوظ ہے۔ وہ ’’بیلی پور‘‘ آتا تو میں کئی کئی روز زبردستی اسے روکے رکھتا لیکن جب اسے روکنا ضروری تھا، میں کچھ بھی نہ کرسکا اور وہ پھولوں میں لدا رخصت ہوگیا۔ وہ میرے بچوں کو میری محمدہ، میرا حاتم، میرا ہاشم کہہ کر بلایا کرتا تھا۔ جاوید قریشی سیشن جج ریٹائر ہوا لیکن آج بھی جاوید ’’ککڑ‘‘ ہے۔ ککڑ کی ایسی آواز نکالتا کہ ککڑیاں اپ سیٹ ہو جاتیں اور تقریب درہم برہم۔ ’’نگر‘‘ کےپرنس برکت کے دو نام تھے۔ برکت سے بکو یا پرنس پیرٹ کیونکہ سرخ چہرہ پر طوطا ناک نمایاں تھی۔ زیارتوں پر گیا اور پھر کبھی اس کی زیارت نصیب نہ ہوئی۔ جمیل اختر بہت پڑھاکو لیکن پائوں باہر نکال کر چلنے کی وجہ سے ’’پھاتاں‘‘ مشہور ہوگیا جبکہ اعجاز کو اعجاز بائی گاڈ اس لئے کہتے کہ ’’بائی گاڈ‘‘ اس کا تکیہ کلام تھا اور ہائے ہم سب کا مسعود داڑھو،جتنا ہینڈ سم اتنا ہی سریلا۔ آج بھی میں اس کی یاد میںا س کا فیورٹ گیت گنگناتا ہوں ’’تم بھلائے نہ گئے ہائے بھلائے نہ گئے‘‘۔افتخار فیروز کو کیسے بھلائیں جو شروع سے ہی ’’ڈھلی‘‘ مشہور تھا کیونکہ اس کے اٹھنے بیٹھنے، چلنے پھرنے، بولنے، پہننے میں اک ناقابل بیان قسم کا ’’ڈھیلا پن‘‘ تھا جو اس پر جچتا بھی بہت تھا۔ اور یاد آیا شیر قادر بلوچ، اک نامور جیالوسٹ جسے ’’شکاری‘‘ اس لئے کہتے کہ چھوٹے سے چھوٹے روشندان سے گزر کر کچھ بھی اڑا لے جاتا لیکن یہ چوریاں اتنی بے ضرر اور معصوم ہوتیں کہ لٹنے والا بھی لوٹ پوٹ ہو جاتا۔ دو بنگالی یاد آئے ایک عبدالعلی جسے اس کےسٹائل کی وجہ سے ’’گیری کوپر‘‘ کہا جاتا اور دوسرا بابل جو بہت ہی مختصر ہونے کی وجہ سے ’’پستہ‘‘ کہلاتا۔ اللہ نے اسے جسم چھوٹا لیکن دماغ بڑا دیا۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد یہ پھر کبھی دکھائی سنائی نہ دیئے لیکن بھولتے نہیں۔

’’تم بھول گئےہم کو، ہم تم کو نہیں بھولے‘‘

نامور سکن سپیشلسٹ ضیا الدین کو ہم ڈاکٹر ژواگو کہتے۔ والد سینئر فوجی افسر تھے۔ کنگ ایڈورڈ میں داخلہ نہ ملا تو والد نے کہا ’’ایم بی بی ایس‘‘ تو صرف KE میں ورنہ کچھ اور کرو‘‘۔ اس نے جیالوجی میں داخلہ لے لیا۔ دو سال بعد KE کا میرٹ گرا۔ ژواگو بھاگ نکلا۔ اللہ سدا سلامت رکھے۔ یوسف ہونڈا کی وجہ شہرت اس کی موٹر سائیکل اور ترکیب استعمال تھی۔ آج کل بیمار ہے، اللہ اسے صحت کاملہ عطا فرمائے۔ اور اب چلتے ہیں جاوید گتہ کی طرف جو جیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ شمس صاحب کا فرزند ارجمند ہے۔ ن،م راشد صاحب کا بیٹا شہر یار راشد امریکہ سے آیا، کوالیفائیڈ مارشل آرٹسٹ تھا اور ہم سب کا دوست جس نے شغلاً ہمیں جوڈو کراٹے سکھانے کی دعوت دی۔ صلو درانی اور میں تو بھاگ گئے لیکن جاوید ڈٹ گیا۔ انتہائی ٹف اور ڈینٹ پروف ثابت ہوا تو خلق خدا نے گتہ کا خطاب دیا جس پر کسی چوٹ، ضرب کا اثر نہ ہوتا۔ شیری فارن سروس میں گیا اور پھر بھری جوانی میں رخصت ہوگیا۔ شیری کو سب ’’ماسٹر‘‘ کہتے تھے۔ خالد ہٹلر، ہٹلر اس لئے تھا کہ ہاسٹل میں پلاسٹر آف پیرس سے ہٹلر کے مجسمے بنایا کرتا تھا، حفیظ خان کے ساتھ کینیڈا میں ہوتا ہے۔ اعجاز نقوی ’’ہیرو‘‘ مشہور تھا۔ نہر کنارے اک لڑکی کے قدموں میں ’’تاج محل‘‘ کا چھوٹا سا رپلیکا رکھا۔ اس سنگدل نے ٹھوکر ماری اور ’’ہیرو‘‘ کا پلاسٹک سے بنا ’’تاج محل‘‘ چکنا چور ہوگیا اور آج تک فیصلہ نہ ہو سکا کہ دل کے ٹکڑے زیادہ تھے کہ تاج محل کے۔ جمیل ڈوگی، ڈوگی اس لئے مشہور ہوا کہ سبز آنکھوں والی اک لڑکی جس کی ماں جرمن تھی، اسے ’’بلی بلی‘‘ کہتا تو دوستوں نے ’’بلی‘‘ کے مقابل اسے ’’ڈوگی ڈوگی‘‘ کہنا شروع کردیا جس پر جمیل کو کوئی اعتراض نہ تھا۔ سگِ لیلیٰ تو سگِ لیلیٰ ہی ہوتا ہے۔

صبح کے 4 بجے ہیں، سناٹا بول رہا ہے۔ میں لکھ رہا ہوں لیکن کیا اور کیوں لکھ رہا ہوں؟

تمہاری یاد کے جب زخم بھرنے لگتے ہیں

کسی بہانے تمہیں یاد کرنے لگتے ہیں

دن تو کسی نہ کسی طرح گزر ہی جاتا ہے، یہ رات کیوں آتی ہے جو تاروں بھری نہیں… یادوں بھری ہوتی ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

Source: Jung News

Read Urdu column Tumhari yad k Zakham jab Bharnay lagay By Hassan Nisar

Leave A Reply

Your email address will not be published.