واحد حل! – علی معین نوازش

ali-moeen-nawazish

یہ ﷲ تعالیٰ کی پاکستان پر خاص رحمت ہی تھی، جس کی بدولت ہم کورونا وائرس کی پہلی اور دوسری لہر سے زیادہ جانی اور مالی نقصان اٹھائے بغیر نکل آئے ۔ تب ماہرین حیرت زدہ ہو کر کہتے تھے کہ یہ ہماری سمجھ سے بالاتر ہے کہ پاکستان میں کورونا وائرس نے اُتنی تباہی کیوں نہیں مچائی جتنی ہمسایہ ملک بھارت یا دنیا کے بیشتر ممالک میں پھیلائی ہے؟ اُس وقت کورونا وائرس کی تشخیص کے لئے کئے جانے والے ٹیسٹوں کی تعداد بھی محدود تھی اور کورونا وائرس کے مریضوں کے حوالے سے اکٹھے کئے جانے والے ڈیٹا پر بھی سوالات اُٹھائے جا رہے تھے لیکن پھر بھی نظر آرہا تھا کہ پاکستان کے حالات بہت سے ممالک سے بہتر ہیں۔ نہ عوام سختی سے احتیاطی تدابیر پر عمل درآمد کر رہے تھے اور نہ ہی حکومت اِس حوالے سے کسی اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی تھی، لامحالہ یہ رحمتِ خداوندی ہی تھی جس کے باعث پاکستان دوسرے ممالک کی نسبت کم متاثر ہوا۔ کچھ لوگ خوراک اور کچھ ملیریا کا مفروضہ پیش کرتے تھے لیکن اگر وہ مفروضے درست تھے تو ہمارے ہمسایہ ملک کے حالات اِتنے خراب کیوں تھے ؟یہ یقیناً ﷲ تعالیٰ کی ہم پر خاص رحمت ہی تھی۔

افسوس کہ ہم، عوام اور ہماری حکومت نے اِس رحمت کی قدر نہ کی ۔ نہ ہی عوام نے کورونا کے خلاف احتیاطی تدابیر پر عمل کیا، جیسا کہ پچھلے کالم میں مَیں لکھ چکا ہوں، نہ ہی حکومت نے کورونا وائرس کے باہر سے آنے والے مختلف سٹرینز کو روکنے کے لئے ٹھوس اقدامات کئے۔ اِس لئے آج تیسری لہر کی صورت میں جو کورونا وائرس پاکستان میں تباہی مچا رہا ہے وہ برطانوی سٹرین والا وائرس ہے۔ وائرس کی یہ قسم زیادہ تیزی سے پھیلتی ہے اور نئی تحقیق سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ اِس سے ہونے والی اموات کی شرح بھی قدرے زیادہ ہے۔

اب اگر ہم نے اِس تیسری لہر پر قابو پانا ہے تو ضروری ہے کہ کورونا کے خلاف احتیاطی تدابیر پر عملدرآمد بہر صورت یقینی بنایا جائے تاکہ وائرس کے پھیلائو کو روکا جا سکے۔ کورونا ایس او پیز کا پہلے سے زیادہ سخت ہونا بھی ضروری ہے کیونکہ یہ نیا وائرس زیادہ آسانی اور برق رفتاری سے پھیلنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ایس او پیز پر صحیح طرح عملدرآمد نہ ہونے کی تین بنیادی وجوہات ہیں۔ اول یہ کہ یہ وائرس ایسا حریف ہے جس کے اثرات اور علامات کو آسانی سے نہیں دیکھا جا سکتا، اِس لئے لوگ اِسے سنجیدگی سے نہیں لے رہے۔پھر حکومت اور بالخصوص سیاسی رہنمائوں کی طرف سے کنفیوژن پھیلائی گئی۔ کورونا وائرس کی تیز لہر کے دوران ہی حکومت اور اپوزیشن دونوںجلسے کرتی رہیں۔ شادی کی تقریبات میں بھی 300افراد کی شرکت کی اجازت دے دی گئی، جہاں 3سو افراد کو اکھٹے ہونے کی اجازت دے دی جائے وہاں لوگ کورونا کو کیسے سنجیدگی سے لیں گے؟ وزیراعظم صاحب نے بذاتِ خود قرنطینہ کے اصولوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے میڈیا ٹیم سے میٹنگ کی ، جس کی تصویری جھلکیاں سوشل میڈیا پر بھی پوسٹ کی گئیں۔ ایسی صورت میں عوام کیسے کورونا ایس او پیز پر عمل کریں گے؟

کورونا وائرس سے بچائو کے لئے جتنے بھی سخت ایس او پیز بنا لئے جائیں اور اُن پر عمل بھی کروا لیا جائے ، یہ مستقل حل نہیں ہے۔ عوام کو ایس او پیز پر عملدرآمد نہ کرنے کا قصور وار ٹھہراتے ہوئے اصل بحث سے دھیان اُٹھ جاتا ہے ۔ ایس او پیز پر سختی سے عملدرآمد کروایا اور لاک ڈائون صرف عارضی طور پر لگایا جا سکتا ہے تاکہ وبا قابو میں رہے لیکن یہ وبا کبھی اِن اقدامات سے ختم نہیں ہو سکتی۔ اِس وبا کو جڑ سے ختم کرنے کا واحد حل ویکسین ہے جو نہ تو حکومت پوری طرح سے فراہم کر پا رہی ہے اور نہ ہی عوام پوری طرح سے لگوا رہے ہیں۔

اِس وقت پورے ملک کا ایک ہی مشن ہونا چاہئے اور وہ ہے ویکسین حاصل کرنا اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو لگوانا۔ ہم نے نہ صرف ویکسین کی دستیابی میں دیر کی بلکہ عوام کو اِس کے بارے میں آگاہ کرنے میں بھی تاخیر سے کام لیا۔ مزید برآں کچھ حکومتی اہلکاروں کے بیانات کہ کورونا ویکسین اپنے ہی رِسک پر لگوائی جائے، ویکسی نیشن کے عمل میں مزید رکاوٹ بنے۔

ایک بات جو ہر جگہ کی جاتی ہے یہ کہ ہم غریب ملک کے باسی ہیں، ہم ویکسین کے پیسے کہاں سے پورے کریں گے؟ ہم یقیناً ایک غریب ملک کے شہری ہیں لیکن جو مالی نقصان ہمیں اِس وبا سے ہو رہا ہے اور خدانخواستہ مزید ہوسکتا ہے ، وہ ویکسین کی قیمت کے آگے کچھ بھی نہیں ہے اور جو جانی نقصان ہو رہا ہے اور مزید ہونے کا خدشہ ہے، اُس کو تو کوئی ازالہ ہے ہی نہیں۔

ہمارے ہاں انسانی جان کی قدر ویسے ہی کم ہے۔ یہاں تو پولیس کی تحویل میں ملزموں کو تشدد کرکے قتل کر دیا جاتا ہے۔ ایمبولنس کو راستہ نہ دے کر اور وی آئی پی موومنٹ میں پھنسا کر بھی لوگوں کو مار دیا جاتا ہے۔ ہم عوام خود بھی اپنی جانوں کی قدر نہیں کرتے۔10ہزار کے نئے فون پر فوراً اسکرین پروٹیکٹر لگواتے ہیں کہ کہیں اسکرین خراب نہ ہو جائے لیکن موٹر سائیکل چلاتے وقت ہیلمٹ پہننا پسند نہیں کرتے۔ ہمیں جان لینا چاہئے کہ اِس وبا سے ہماری معیشت بھی اُتنی ہی متاثر ہو رہی ہے جتنا کہ ہم خود ۔ اِس لئے ہمیں ہر حال میں اِس وبا کے واحد حل، ویکسین کی طرف جانا ہو گا۔ جتنا جلدی ہم اِس میں انویسٹ کریں گے اُتنا ہی ہمیں فوری فائدہ ہوگا۔

Must Read Urdu column Wahid Hull By Ali Moeen Nawazish
Source: Jang

Leave A Reply

Your email address will not be published.