وقت سے پہلے نہیں، مقدر سے زیادہ نہیں – حسن نثار

hassan-nisar

یہ زندگی کیا ہے ؟

بالکل ایسے ہی ہے جیسے کوئی کسی معصوم بچے کو انتہائی خوبصورت دلچسپ کھلونا دے اور پھر جب وہ بچہ اس کھلونے سے کھیلنے کا عادی ہو جائے تو یہ کھلونا اس سے چھین لیا جائے اور بچہ روتے روتے ہمیشہ ، ہمیشہ کیلئے سو جائے ۔ ہم انسان صرف بچھڑنے کیلئے ملتے اور بکھرنے کیلئے یکجا ہوتے ہیں۔ اس سے زیادہ اس زندگی کی نہ کوئی اوقات ہے نہ حیثیت لیکن المناک طربیہ یہ ہے کہ اس مختصر اور محدود وقفہ کیلئے بھی انسان کیا کیا کچھ نہیں کرتا ؟ کیسا کیسا گند نہیں گھولتا؟تج دینے کیلئے جان ہر جاندار کو ملتی ہے لیکن انسان کا کیس بہت ہی انوکھا اور نرالا ہے جو طمع، حرص، ہوس کی دوڑ میں کہیں بھی فل سٹاپ لگانا نہیں جانتا۔ کروڑوں میں ایک آدھ خوش بخت ہی ایسا ہو گا جس کے اہداف واضح ہوں اور وہ انہیں حاصل کرنے کے بعد کہے ….بس بھئی بس، بہت ہو گیا اور اب میں نے فل سٹاپ لگانے کا فیصلہ کرلیا ہے اور اب کوئی TEMPTATIONمجھے میرے مقام سے نہیں ہلا سکتی ۔لوگ لالچ کو گلیمرائز کرتے کرتے بے دم ہو کر اس طرح گرتے ہیں کہ پھر کبھی اٹھنا نصیب نہیں ہوتا اور قریبیوں کی آخری فیور یہ ہوتی ہے کہ اسے نہلانے دھلانے کفن پہنانے کے بعد سپردخاک کرآتے ہیں ۔چند دن فضا ماتمی سی رہتی ہے اور زندگی معمول کی طرف لوٹ جاتی ہے ۔پھر پھول مہنگے اور قبریں پرانی ہو جاتی ہیں ۔بزرگ کہا کرتے ہیں ’’پڑ پیا تے رشتہ گیا‘‘ اور واقعی میں نے آج تک کسی کو پڑدادا یاد کرتے نہیں دیکھا ۔

زندگی بھر ہلکان ہونے اور اندھا دھند دوڑتے چلے جانے کو گورے بجا طور پر "RAT RACE”کہتے ہیں اور پورا جملہ یہ ہے ۔

"RAT RACE IS A RACE, EVEN IF YOU WIN, YOU ARE STILL A RAT”

یعنی اگر کوئی زندگی کی دوڑ میں چوہے کی مانند دوڑتا جا رہا ہے تو وہ جیتنے کے بعد بھی رہے گا چوہا ہی لیکن جب میں اپنے ارد گرد لوگوں کو دیکھتا ہوں تو یوں محسوس کرتا ہوں جیسے ان کی تھکن اور دکھن میری روح میں گھستی جا رہی ہے ۔صبح سے شام بلکہ ر ات تک لُور لُور پھرتے ہیں، جھوٹی جپھیاں،جعلی پپیاں، بوگس رشتے جن میںنہ گہرائی نہ گیرائی، کوئی بو نہ خوشبو، ناشتہ کہیں، لنچ کہیں، ڈنر کہیں کیونکہ شاید ضعف کا سروائیول ہی اس میں ہے کہ گروپس کی شکل میں اوپریٹ کرے اور زندہ رہے ،طاقتور کیلئے اسکی تنہائی کافی ہوتی ہے ۔

’’ساتھی ہاتھ بڑھانا

ایک اکیلا تھک جائے گا

مل کر بوجھ اٹھانا‘‘

جدیدیت، مادیت، سائنس ٹیکنالوجی میرے نزدیک ولن نہیں، ہیروز ہیں لیکن پسماندہ ذہنوں کو انہیں ہینڈل کرنا نہیں آ رہا کیونکہ یہ ذہن کم اور ’’معدے’’ زیادہ ہیں جو عمروعیار کی زنبیل کی مانند بھرنے میں نہیں آتے ۔جتنا اندر جاتا ہے، یہ اسی حساب سے پھیلتے رہتے ہیں اور بابا ظہیر کاشمیری کی یہ بات بھول جاتے ہیں کہ

لوح مزار دیکھ کے جی دنگ رہ گیا

ہر ایک سر کے ساتھ فقط سنگ رہ گیا

زندگی یقیناً شاعری نہیں لیکن اتنی عملی بھی نہیں جتنی ہم نے سمجھ لی ہے ۔میں نے برسوں پہلے ایک قریبی دوست کو یہ مشورہ دیا تھا کہ ’’اپنے بچوں کا اچھا ابا تو ضرور بن لیکن خدا بننے کی کوشش نہ کر‘‘ بچوں کیلئے بنیادی ضرورتوں کا انتظام اور اہتمام کرنا ہر باپ کی اولین ضرورت ہے ۔ہمارے بہت سے اہل قلم ایسے احمق ’’درویش‘‘ تھے جنہوں نے اس ذمہ داری کو سنجیدگی سے نہیں لیا اور نتیجہ یہ کہ کسی کا بچہ ’’اوبر‘‘ یا رکشہ چلا رہا ہے کسی کا کلرکی کر رہا ہے تو یہ ایک بدصورت انتہا ہے جبکہ دوسری انتہا یہ کہ باپ ہر قسم کا سمجھوتہ صرف اس لئے کر گزرتا ہے کہ اولاد ’’محفوظ‘‘ ہو جائے یہ دونوں انتہائیں ہیں جبکہ ہمیں تو عبادت کرنے یا کھانے میں بھی اعتدال اور میانہ روی کا حکم ہے ۔ہندودانش بھی یہی کہتی ہے کہ ’’کپوت کیلئے جوڑو نہیں اور سپوت کیلئے چھوڑو نہیں ‘‘ کہ کپوت کیلئے جو کچھ بھی جوڑو گے وہ اسے برباد کرکے رکھ دے گا اور سپوت کیلئے عمدہ اچھی تعلیم اور تربیت ہی بہت کافی ہو گی وہ اپنی دنیا خود بنا لے گا۔

شاعروں کی اپنی ہی دنیا ہے اور میرے نزدیک زندگی کو شعری اور عملی کا پیوند ہونا چاہئے مثلاً نثار ناسک مرحوم نے کہا

دل میں اب تک جل رہی ہیں آرزو کی دو لووئیں

ایک وہ پیاری سی لڑکی ایک وہ چھوٹا سا گھر

میرے نزدیک اس کا مطلب ہے ’’کم بچے خوشحال گھرانہ ‘‘ بنیادی ضروریات پوری ہوں، بچوں کے پاس ’’ سیڈمنی ‘‘ یا ’’ٹیک آف‘‘ کا مناسب بندوبست ہو۔ بچے اچھی تعلیم و تربیت کے ’’زیور‘‘ یا ’’ہتھیار‘‘ سے لیس و آراستہ ہوں اور بس ۔ خودذاتی طور پر میری زندگی میں ’’کومپرومائز‘‘ نامی کسی شے کا نہ کوئی تصور تھا، نہ ہے نہ کبھی ہو گا۔ ایک بھی سمجھوتہ مجھے یاد نہیں کہ 24-23برس کی عمر میں 18ویں گریڈ کو دھتکاردیا حالانکہ پیچھے بھی کچھ نہ تھا جبکہ پیچھے بہت کچھ تھا وہ مرا اپنا نہ تھا’’خودی‘‘ جیسی ان دیکھی شے کا شکار رہا اور خود ساختہ جلا وطنی قبول کرلی۔ تب پنجاب یونیورسٹی سٹوڈنٹس یونین کے سابق صدر اور بچپن کے دوست حفیظ خان نے ’’گن پوائنٹ‘‘ پر سعودی عرب منتقل ہونے پر مجبور کر دیا تو پھر مالی حوالوں سے کبھی پیچھے مڑ کے نہیں دیکھا اور میرا ایمان ہے کہ میرا رب ہر شکر خورے کو شکر دیتا ہے جو خود دار ہو وہ خود اس کی خودی کا محافظ بن جاتا ہے اور باعزت لوگوں کو در در بھٹکنے، کومپرومائز کرنے، جھکیں مارنے سے محفوظ کر لیتا ہے۔

جہاں میں حالی کسی پہ اپنے سوا بھروسا نہ کیجئے گا

یہ راز ہے اپنی زندگی کا، بس اس کا چرچا نہ کیجئے گا

بچپن میں کہیں پڑھا تھا ’’وقت سے پہلے نہیں، مقدر سے زیادہ نہیں ‘‘ یہی میری زندگی کا نچوڑ اور پھر خلاصہ بنا ۔میں نے قدم قدم پر جھک ماری، اس نے قدم قدم پر مجھے تھاما، سہارا اور کنارا دیا ، شاید اس کا لاڈلا ہونے کی کچھ شرائط ہیں تو ظاہر ہے ڈگریاں امتحانوں کے بعد ہی ملتی ہیں۔

’’ہم ہیں کسی کے ہاتھ میں بے جان پتلیاں‘‘

اور ….

’’سامان سو برس کا ہے پل کی خبر نہیں ‘‘

’’خواب تھا جو کچھ کہ دیکھا جو سنا افسانہ تھا‘‘

غریب شہر تو فاقے سے مر گیا عارف

امیر شہر نے ہیرے سے خودکشی کرلی

یگانہ نے تو کیسی انتہا کی ہے…..

موت بھی مل نہ سکی منہ مانگی

اور کیا التجا کرے کوئی

نہ ماضی میرے بس میں نہ مستقبل پہ کوئی اختیار تو یہ بنیادی بات سمجھنے میں کیا مشکل کہ ’’وقت سے پہلے نہیں مقدر سے زیادہ نہیں ‘‘ پھر یہ پھرتیاں، چلاکیاں، ذلتیں، اہانتیں، ضمیر فروشیاں اور سمجھوتے کس کھاتے میں؟ جینا ہے تو عزت سے جیو ورنہ موت مبارک ہے۔

(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

Source: Jung News

Read Urdu column Waqt se Pehlay nahin Muqaddar se Zayda nahi By Hassan Nisar

Leave A Reply

Your email address will not be published.