وزیر اعظم کی تقریر اور تبصرہ – حسن نثار

hassan-nisar

انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند

کاش خواہشیں گھوڑے ہوتیں

عدیم ہاشمی مرحوم نے لکھا تھا

ہم ایک لاکھ تھے ہم نے تو سرجھکا ڈالے

حسین!تیرے بہتر سروں پہ لاکھ سلام

باقاعدہ لڑائی شروع ہونےسے پہلے گینگ لیڈر نے حریف سے پوچھا

تم کتنے بھائی ہو ؟

جواب ملا ’’ہم پانچ بھائی ہیں ‘‘

’’تم جیسے پند رہ بھی ہوں تو ہمارا کیا بگاڑ لیں گے‘‘

وزیر اعظم کا حالیہ بیان سامنے ہے جس پر پیار لیکن خود پر ترس آ رہا ہے ۔چند خواہشوں، خوابوں اور فرمائشوں کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔وزیراعظم نے فرمایا ،

’’مسلم ممالک اپنا بلاک بنائیں‘‘

’’ڈیڑھ ارب مسلمان امن کیلئے اپنی طاقت استعمال کریں‘‘

’’کوئی ہماری بات سنتا نہ سنجیدہ لیتا ہے ‘‘

’’معاشرہ چند جنونیوں کا ذمہ دار کیسے ہو سکتا ہے ‘‘

’’بنیادی مسائل پر متحدہ فرنٹ بنانا ہو گا‘‘ وغیرہ وغیرہ

سب سے پہلی سادہ سطحی سی بات یہ کہ کیا ہم ایک گلی، ایک محلہ، ایک علاقہ، ایک جماعت میں بھی ’’اکٹھے‘‘ ہیں جو ملکوں کی سطح پر ’’بلاک‘‘ بنانے کے خواب دیکھیں؟ اور کیا بنو امیہ، بنو عباس سے لیکر آج تک اس خوبصورت خواب کو کبھی تعبیر نصیب ہوئی؟ممالک تو علیحدہ رہے ، یہاں تو عثمانیوں سے لیکر مغلوں تک، میر جعفر سےلیکر میر صادق تک آپس میں بھی نہ سنبھالے جاسکے اور یہی حال صفویوں کا تھا ۔تازہ ترین تاریخ اس اسلامک سمٹ کی ہے جس میں بھٹو سے لیکر شاہ فیصل، قذافی سے لیکر صدام اور بنگلہ بندھو شیخ مجیب الرحمن بھی شامل تھے۔نتیجہ بلکہ نتائج کیا نکلے ؟نہ کہیں جمہوریت خالص نہ کہیں آمریت خالص، محاورے والی ڈیڑھ ڈیڑھ اینٹ کی مسجدیں گنی نہیں جاتیں۔دولت مند مسلمان ملکوں میں غریب مسلمان ملکوں کے مزدورں کے ساتھ ہونے والا سلوک بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں اور عربوں، ترکوں، ایرانیوں کی تکون والی تاریخ بھی سامنے ہے ۔یورپ یلدرم سے لرزتا تھا جب تیمور نے طویل سفر کے بعد اس کا برج الٹا دیا اور خلافت عثمانیہ کو ٹی وی پروگراموں کی طرح ’’بریک‘‘ پر جانا پڑا ۔

رہ گئی ڈیڑھ ارب کی مسلم آبادی تو حضور!یہ لکھ لکھ کر میرے ہاتھ تھک گئے، انگلیاں گھس گئیں کہ یہ عہد ’’ تعداد‘‘ نہیں ’’استعداد‘‘ کا عہد ہے ورنہ مٹھی بھر صیہونیت دنیا کو ’’رمبا سمبا‘‘ نہ نچوا رہی ہوتی ۔خدا جانے ہمیں کب یہ بنیادی سی بات سمجھ آئے گی کہ یہ ’’مسل‘‘ کا نہیں ’’عقل‘‘ کا زمانہ ہے جس کا سلیس ترین ترجمہ ہے ….’’سائنس اینڈ ٹیکنالوجی‘‘ ڈیڑھ ارب بجا لیکن عہد حاضر کی سینکڑوں بلکہ ہزاروں ایجادات و دریافتوں میں کیا ہمارا حصہ’ ’ڈیڑھ فیصد‘‘ بھی ہے ؟ اور یاد رکھنا کہ جو لوگ عہد حاضر کا ناک نقشہ بنائیں گے جو لوگ رولز آف دی گیم طے کریں گے، جو لوگ زمانہ کی ترجیحات طے کریں گے، احکامات بھی انہی کے چلیں گے، ہدایات بھی انہی سے لینا ہوں گی، باقی یہ ’’گلوبل ویلیج‘‘ اور ’’گلوبل سٹیزن‘‘ یہ جناتی قسم کے بین الاقوامی ادارے سراب سے زیادہ کچھ نہیں جن سے صرف ترقی یافتہ قوموں کے ’’مویشی‘‘ ہی سیراب ہو سکیں گے۔ باقی رہ گئیں بڑھکیں تو ان کیلئے مظہر شاہ، ساون اور سلطان راہی تو جچتے ہیں …لیڈر نہیں کیونکہ لیڈر اپنے آپ کوتو نظرانداز کر سکتا ہے، زمینی حقائق سے نظریں چرانے کی حماقت نہیں کر سکتا۔

رہ گیا ہمیں سنجیدہ نہ لینا یا ہماری بات نہ سننا تو ہے کوئی نیوٹن، ایڈیسن یا آئن سٹائن جس کی بات کو سن کے ان سنی کر دیتے یا سنجیدہ نہ لیتے؟ اور کیا آپ یعنی ہمارے حکمران خود اپنے ملکوں میں اپنے عوام کی سنتے ہیں جو کوئی آپ کی سنے ؟کہ مزید قرض کی صدا کے علاوہ آپ کے پاس سنوانے کو ہے کیا؟اپنے عوام کو ’’چھکو‘‘ پر بٹھا کر سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے ۔

مختصراً یہ کہ لمبی چوڑی ڈینگیں، مسائل چھوڑ کر کوئی ’’اچیوایبل‘‘ قسم کا ٹارگٹ بنائو جو غیر متنازع ہو سیانوں نے علم کے شہر بسائے ہیں ۔

سارے مسلمان ملک مل کر ’’علم کا مشترکہ ملک‘‘ بنائو ۔دنیا بھر سے اعلیٰ ترین، قابل ترین اساتذہ جمع کرو تو دوسری طرف پوری مسلم دنیا سے جانچنے، پرکھنے کے بعد ذہین ترین بچوں کو لیکر شروع سے آخر تک، پرائمری سے پی ایچ ڈی تک انہیں جدید ترین سائنسی علوم اور ٹیکنالوجی کے ہتھیاروں سے لیس کرو۔دولے شاہ کے چوہوں اور شاہوں کے مصاحبوں کی بجائے شہہ دماغوں کی ایک نسل تیار کرو جس کیلئے پندرہ، بیس سال سے زیادہ کا عرصہ درکار نہ ہو گا۔ان کے سروں پر ’’ٹوپے‘‘ نہیں علم کے خود ہوں، ان کے جسموں پر جدید ترین علوم کی زرہ بکتریں ہوں تو دیکھو ہوتا کیا ہے لیکن مجھے ’’اطمینان‘‘ ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہوگا اور ڈیڑھ ارب مسلمان ڈیڑھ لاکھ کیا ڈیڑھ ہزار غیر معمولی بچوں کو بھی بہترین طریقے سے پروان چڑھا کر میدان عمل میں نہیں اتار سکیں گے یعنی …

’’کتنے بھائی ہو؟

پانچ

تم پندرہ بھی ہوتے تو کیا کر لیتے ‘‘

رہ گئی یہ بات کہ معاشرہ چند جنونیوں کا ذمہ دار کیسے ہو سکتا ہے تو سرکار!چند گندی مچھلیاں ہی پورے تالاب کو گندا اور بدنام کر سکتی ہیں اور مجمع الٹانے کیلئے چند سانپ ہی کافی ہوتے ہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

Source: Jung News

Read Urdu column Wazir e Azam ki taqreer aur Tabsra By Hassan Nisar

Leave A Reply

Your email address will not be published.