وہ وقت کب آ ئے گا – جاوید چوہدری

Javed Chaudhry

میرے ایک دوست ہیں‘ تین نسلوں سے کاروباری ہیں‘ کراچی میں بزنس کرتے ہیں‘ والد احمد آباد (گجرات) کے چھوٹے سے گاؤں میں دکان چلاتے تھے‘ خاندان پاکستان بننے کے بعد کراچی آ گیا‘ والد کاروبار کے سلسلے میں چٹاگانگ گئے‘ مشرقی پاکستان میں فیکٹریاں لگانا شروع کیں اور یہ 17 فیکٹریوں کے مالک بن گئے۔

1971ء میں فسادات شروع ہو گئے‘ یہ لوگ جان بچا کر بھاگے اور لاشیں پھلانگ کر واپس کراچی پہنچے‘ نئے سرے سے کام شروع کیا اور ایک بار پھر قدموں پر کھڑے ہو گئے‘ یہ اب ملک کے چند بڑے بزنس مینوں میں شمار ہوتے ہیں اور چار ارب روپے سالانہ ٹیکس دیتے ہیں۔

یہ چند دن قبل میرے پاس تشریف لائے‘ گفتگو کے دوران بنگلہ دیش کا تذکرہ شروع ہوا تو مجھے پہلی مرتبہ پتہ چلا یہ سال میں تین چار مرتبہ بنگلہ دیش جاتے ہیں‘ میں نے وجہ پوچھی‘ یہ مسکرا کر بولے‘ میرا ایک بھائی اور والدہ دونوں چٹاگانگ میں رہتے ہیں‘ میں حیران ہو گیا‘ یہ بولے‘ ہم چٹاگانگ میں سب سے بڑے انڈسٹریل گروپ تھے‘ بنگلہ دیش بننے کے بعد ہمارا سب کچھ مشرقی پاکستان میں رہ گیا تھا‘ بنگلہ دیش بننے کے بعد شیخ مجیب الرحمن نے میرے والد کو ڈھاکا بلوایا اور دوبارہ کام شروع کرنے کی درخواست کی‘ ہمارے والد انکار نہ کر سکے چنانچہ ہم نے وہاں تھوڑا تھوڑا کام شروع کر دیا۔

آج بھی میری والدہ اور ایک بھائی چٹاگانگ میں ہیں‘ میں ان سے ملنے جاتا رہتا ہوں‘ میں نے ان سے پوچھا‘ آپ کو 1970ء اور آج کے چٹاگانگ میں کیا فرق محسوس ہوتا ہے‘ یہ ہنس کر بولے ’’ہم اس زمانے میں شہر کی سڑکوں پر کرکٹ کھیلا کرتے تھے لیکن آج جب میں صبح ائیرپورٹ کے لیے نکلتا ہوں تو میلوں تک سر ہی سر ہوتے ہیںاور ڈرائیور دس منٹ کا سفر تین گھنٹوں میں طے کرتا ہے‘‘ میں نے پوچھا ’’کیا یہ فرق آبادی کی وجہ سے ہے‘‘ وہ ہنس کر بولے ’’ہرگز نہیں‘ چٹاگانگ میں دراصل ایکسپورٹ پروسیسنگ زون ہے‘ اس میں 180 انٹرنیشنل فیکٹریاں ہیں‘ یہ تمام لوگ کام کے لیے صبح وہاں جاتے ہیں چنانچہ سڑکوں پر انسانوں کا سیلاب دکھائی دیتا ہے اور اس سیلاب کا 90 فیصد عورتوں پر مشتمل ہوتا ہے۔

بنگلہ دیش کا اصل کمال خواتین ہیں‘ ان لوگوں نے خواتین کو کارآمد بنا دیا چنانچہ ملک ترقی کر رہا ہے‘ آپ وہاں کسی طرف نکل جائیں‘ آپ کو وہاں عورتیں کام کرتی دکھائی دیں گی چنانچہ میں جب بھی چٹاگانگ جاتا ہوں‘ مجھے یہ فرق حیران کر دیتا ہے‘‘۔

میرے دوست ٹھیک فرما رہے تھے‘ بنگالیوں نے 1971ء کے بعد خواتین کو ایکٹو لائف میں شامل کرنا شروع کر دیا تھا‘ گرامین بینک اور براک جیسی آرگنائزیشنز نے مردوں کے بجائے عورتوں کو قرضے دینا شروع کر دیے اور یوں خواتین آہستہ آہستہ مردوں سے آگے نکلتی چلی گئیں یہاں تک کہ آج 82 فیصد جوان بنگالی خواتین کام کرتی ہیں‘ آپ بنگلہ دیش کی کسی منڈی‘ شاپنگ سینٹر‘ آفس یا پھر فیکٹری میں چلے جائیں آپ کو وہاں ہر طرف خواتین نظر آئیں گی جب کہ پاکستان میں صرف ایک فیصد خواتین ’’ورکنگ وومن‘‘ ہیں‘ یہ بنگلہ دیش کے اکنامک ماڈل کا پہلا حصہ ہے۔

آپ اب اس ماڈل کا دوسرا اور تیسرا حصہ بھی دیکھئے‘ 1971ء تک بنگلہ دیش کی معیشت ’’امپورٹ بیسڈ‘‘ تھی‘ کھانے کا سامان تک باہر سے آتا تھا‘ مشرقی پاکستان میں باتھ روم بھی مغربی پاکستان بنواتا تھا لیکن بنگلہ دیش نے آہستہ آہستہ اپنی معیشت کو امپورٹ سے ایکسپورٹ میں تبدیل کر دیا یہاں تک کہ 2018ء میں بنگلہ دیش کی ایکسپورٹس 45 بلین ڈالرز تھیں‘ یہ اس سال 47 بلین تک پہنچ چکی ہیں اوریہ 2021ء میں اپنی پچاسویں سالگرہ 50 بلین ڈالرز کی ایکسپورٹس کے ساتھ منائینگے اور بنگلہ دیش نے یہ فیصلہ آج سے دس سال پہلے کیا۔

بنگالی حکومت نے 2011ء میں اعلان کیا تھا ہم نے پچاسویں سالگرہ تک (2021ء) پچاس بلین ڈالرز کی ایکسپورٹس کا ٹارگٹ اچیو کرنا ہے اور یہ تقریباً اس ٹارگٹ کے قریب پہنچ چکے ہیں‘ اس کا جی ڈی پی بھی 348 بلین ڈالرز ہو چکا ہے اورگروتھ 7 اعشاریہ 9 فیصد ہے‘ یہ اس لحاظ سے دنیا کی 39ویں معیشت بن چکا ہے‘ اس کے مقابلے میں ہماری گروتھ منفی 0.4 ہو چکی ہے‘ جی ڈی پی 280 بلین ڈالرزہے اور ہم 22 کروڑ لوگ صرف 20 بلین ڈالرز کی ایکسپورٹس کرتے ہیں۔

آپ یہ حقیقت بھی ملاحظہ کیجیے بنگلہ دیش میں کاٹن پیدا نہیں ہوتی لیکن یہ کپاس امپورٹ کر کے 20 بلین ڈالرز کا تیار کپڑا‘ 19 بلین ڈالرز کا دھاگا‘ سوا بلین ڈالرز کے جوتے (جاگرز) اور ایک بلین ڈالرز کی کاٹن ایکسیسریز ایکسپورٹ کرتا ہے جب کہ کاغذ اور گرم کپڑے کی ایکسپورٹ 603 ملین ڈالرز‘ مچھلی 532 ملین ڈالرز‘ چمڑا 368 ملین ڈالرز‘ ٹوپیاں 332 ملین ڈالرز‘ کھالیں 140 ملین ڈالرز اور پلاسٹک کی مصنوعات کی ایکسپورٹ 113 ملین ڈالرز ہے‘ یہ بڑی تیزی سے دنیا کے دس بڑے ایکسپورٹرز کی لسٹ کی طرف بھی بڑھ رہا ہے اور بنگلہ دیش کے فارن ایکس چینج ریزروز بھی39 بلین ڈالرزہیں جب کہ ہمارے ریزروز 19بلین ڈالرز ہیں۔

بنگلہ دیش کی کرنسی کا نام ٹکا ہے‘ 1971ء میں پاکستان کے ایک روپے کے چار ٹکا آتے تھے‘ آج ایک ٹکا پاکستان کے اڑھائی روپے کے برابر ہے‘ آج بھارتی اور بنگلہ دیشی کرنسی برابر ہو چکی ہے اور آپ یہ بھی ذہن میں رکھیں بنگلہ دیش نے یہ ساری معیشت کمائی ہے‘ اس میں کوئی کولیشن سپورٹ فنڈ‘ وار آن ٹیرراور افغان جہاد کے پیسے شامل نہیں ہیں‘ یہ ان کے ہاتھوں کی کمائی ہے جب کہ ہم امریکا‘ عربوں اور چین کے سب سے بڑے جنگی سپورٹر ہونے کے باوجود کاسہ گدائی لے کر گلی گلی پھر رہے ہیں۔

یہ بنگالی کون ہیں؟ کیا یہ وہی لوگ نہیں ہیں ہم جنکے ساتھ ہاتھ تک ملانے کے روادار نہیں ہوتے تھے‘ یہ وہی لوگ نہیں ہیں جنھیں ہم چھوٹے قدوں‘ تنگ چھاتیوں اور کالی رنگت کی وجہ سے فوج اور پولیس میں بھرتی نہیں کرتے تھے؟

ہم جنھیں ویٹرز اور خانساموں سے اوپر اسٹیٹس دینے کے لیے تیار نہیں تھے‘ ہم جنھیں کنٹرول کرنے کے لیے مغربی پاکستان سے میجر جنرل اور چیف سیکریٹری بھجوا دیتے تھے اور وہ وائسرائے بن کر پورے مشرقی پاکستان کو کنٹرول کرتے تھے‘ ہم جن کے بارے میں کہتے تھے بنگالیوں کو باتھ رومز اور ٹوائلٹس کی کوئی ضرورت نہیں‘ یہ سرکنڈوں کے پیچھے بیٹھ کر سب کچھ کر لیتے ہیں اور ہم جن کے لیڈروں کو دھوتی والے بھی کہا کرتے تھے اور انھیں اٹھا کر جیلوں میں پھینک دیتے تھے۔

ہم 1971ء تک ان کے بارے میں کہا کرتے تھے، یہ ہم سے الگ رہ کر ایک سال نہیں گزار سکیں گے اور یہ روتے ہوئے ہمارے پاس آئینگے لیکن آج 49 سال بعد بنگلہ دیشی کہاں ہیں اور ہم کہاں ہیں؟ ہم بہادر ‘ دانشور‘ چالاک اور خوبصورت ہونے کے باوجود نیچے سے نیچے جا رہے ہیں جب کہ بنگالی بدصورت‘ بیوقوف‘ نالائق اور بزدل (یہ ہماری اشرافیہ کہا کرتی تھی‘ میری رائے بنگالیوں کے بارے میں بالکل مختلف ہے) ہونے کے باوجود ترقی پر ترقی کرتے جا رہے ہیں۔

بنگلہ دیش کی آبادی 1971ء میں ساڑھے چھ کروڑتھی اور ہم چھ کروڑتھے لیکن آج یہ ساڑھے سولہ کروڑ ہیں اور ہم 22 کروڑہیں یعنی بنگالیوں نے اپنی آبادی تک کنٹرول کر لی اور ہم اپنی آبادی پر بھی قابو نہ پا سکے‘ ہم دھڑادھڑ پھیلتے چلے جا رہے ہیں‘ ہماری شرح خواندگی73سال بعد 60فیصداور بنگلہ دیش کی49سال میں 74فیصد ہو گئی‘ ہم آج بھی مارشل لاء کے خوف کے نیچے زندگی گزار رہے ہیں جب کہ بنگلہ دیش میں ہر گزرتے دن کے ساتھ جمہوریت کی جڑیں مضبوط ہو رہی ہیں‘ اور آپ المیے پر المیہ دیکھئے۔

کراچی کے وہ بزنس مین اور صنعتکار جو 1971ء میں جان بچا کر مغربی پاکستان آئے تھے وہ اب بنگلہ دیش میں فیکٹریاں لگا رہے ہیں‘ یہ لوگ آج کے پاکستان سے بھاگ کر سابق پاکستان میں پناہ لے رہے ہیں‘ ان کی کرکٹ ٹیم بھی ہم سے بہتر ہو چکی ہے‘ یہ عدل وانصاف میں بھی ہم سے آگے ہیں‘ ان کی ٹیکس کولیکشن بھی ہم سے بہتر ہے اور سیاحت بھی‘ یہ جرائم میں بھی ہم سے بہت پیچھے ہیں‘ وہاں ہمارے مقابلے میں مذہبی رواداری بھی کہیں زیادہ ہے اور بنگلہ دیش عالمی سطح پر بھی ہم سے بہت آگے نکل چکا ہے‘ او آئی سی ہمارے مقابلے میں ان کی بات زیادہ سنتی ہے اور یورپی یونین اور اقوام متحدہ بھی ان کو ہم سے زیادہ اہمیت دیتی ہے۔

کیوں؟ کیا ہم نے کبھی سوچا! آخر ہم میں کوئی نہ کوئی خامی تو ہو گی؟ ہماری اپروچ‘ ہمارے ماڈل میں کوئی نہ کوئی خرابی تو ہو گی جس کی وجہ سے ہم پیچھے جا رہے ہیں اور کالے کلوٹے بنگالیوں میں کچھ نہ کچھ تو ہوگا جس کی وجہ سے یہ 49 سال میں ہم سے آگے نکل گئے ہیں‘کیا اب بھی وہ وقت نہیں آیا کہ ہم کسی کونے میں بیٹھ کر ٹھنڈے دل ودماغ سے یہ سوچ سکیں ‘ہم اپنا محاسبہ کر سکیں‘ اگر وہ وقت اب بھی نہیں آیا تو پھر کب آئے گا؟ خدا کے لیے سوچیے۔

Source

Must Read urdu column Wo Waqt Kab aye ga by Javed Chaudhry

Leave A Reply

Your email address will not be published.