یہ آگ تم نے خود بھڑکائی تھی – اوریا مقبول جان

Orya Maqbool

آج سے چند سال پہلے ایک موبائل کمپنی کے اشتہار میں ایک ایسا گھرانہ دکھایا گیا تھا، جس میں ایک لڑکی جو کرکٹ کی شوقین ہوتی ہے، وہ کرکٹ میچ کھیلنے کو جانے لگتی ہے تو ماں اس سے کہتی ہے کہ ’’بیٹا اپنے باپ سے اجازت لے لو‘‘، تو وہ باپ کو اپنے شوق کے راستے کی رکاوٹ بتاتے ہوئے اس خیال کو نفرت سے جھٹک دیتی ہے، اور روانہ ہو جاتی ہے۔ اشتہار میں اس کے بعد اس لڑکی کے میچ کھیلنے کے مناظر دکھائے جاتے ہیں۔ بحیثیت بائولر اس کی تیز رفتاری کو کیمرے کی ’’بدمعاشیوں‘‘ سے ایکسپوز‘‘ کیا جاتا ہے۔ پوری دُنیا میں کرکٹ میچ دکھاتے وقت کیمرے کا رُخ بیٹ مین کی طرف ہوتا ہے، اور بائولر کو پیچھے سے دوڑتے ہوئے دکھایا جاتا ہے، لیکن اس اشتہار میں خصوصاً کیمرے کو خاتون کے سامنے رکھ کر سلو موشن میں دوڑانے کے مناظر دکھانے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ چلو یہ سب کچھ تو ’’مال‘‘ بیچنے کی مجبوری ہو سکتی ہے، جسے عرفِ عام میں مارکیٹنگ کہتے ہیں۔ لیکن اس اشتہار کا انتہائی گھنائونا پہلو یہ تھا کہ وہ لڑکی جو باپ سے پوچھے بغیر گھر سے چلی جاتی ہے، اسے ایک کامیاب کرکٹر بنا کر ایک پیش کیا جاتا ہے۔

اور آخر کار ’’بیچارے‘‘ باپ کو اس کے سامنے ایک ’’شرمندہ خطاکار‘‘ کے طور پر ’’سرینڈر‘‘ کروایا جاتا ہے۔ اشتہار نشر ہونے کے اگلے ہی دن میں نے اس پر اپنے پروگرام ’’حرفِ راز‘‘ میں تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ٹھیک ہے تم مارکیٹنگ کی ہوس میں عورت کو چاہے جس میدان میں لے جا کر کھلوائو اور جس ’’پروفیشن‘‘ میں چاہے اس کی کامیابی کے جھنڈے بلند کرو لیکن اللہ کا واسطہ ہے، ایک باپ کی نافرمان بیٹی کو کامیاب ہوتے ہوئے مت دکھائو۔ اس تصور کو ملک کی عام لڑکیوں کے لئے ایک نمونہ مت بنائو، یہ سب کچھ انہیں باپ کی نافرمانی کی ترغیب دلائے گا۔ میری اس تنقید کے بعد اس ملک میں کون نہیں تھا جس کے ہاتھ میرے گریبان تک نہ آئے ہوں۔ ہر سیکولر، لبرل دانشور اینکر نے اپنی نفرت کا زہر مجھ پر پھینکا اور مجھے ہدفِ تنقید بنایا۔ مجھے عورت دُشمن Mysogynist تک کہا گیا۔ مجھے اس تنقید پر ذرا برابر بھی دُکھ نہیں ہوا، لیکن اس اشتہار کے پسِ پردہ معاشرے کو خراب کرنے کے کریہہ منصوبے رکھنے والوں نے جس طرح میرے اہلِ خانہ، بیوی اور شادی شدہ بیٹیوں کو غلیظ جملوں کا نشانہ بنایا، اس کا دُکھ مجھے آج بھی ہے۔

میری وجہ سے ان گھریلو خواتین نے جو اذیت برداشت کی اس پر مجھے شرمندگی ہے۔ اللہ انہیں اس کا ضرور اجر دے گا اور ان کی اس اذیت کا مقدمہ تو وہاں درج ہے جہاں سے ناانصافی کی توقع بھی نہیں کی جا سکتی۔ لیکن آج جب ان تمام لوگوں کو دُعا زہرا کے بارے میں تڑپتے ہوئے دیکھا اور اس کی ماں کو آنسو بہاتے اور بیٹی کی اذیت میں مضطرب ہوتے دیکھا تو مجھے اپنے وہ تمام کالم اور ٹیلی ویژن کی بحثیں یاد آ گئیں، کہ میں، جن میںمرضی کی شادی کرنے والی بچیوں کے حق میں اُٹھنے والی آوازوں سے دست بستہ مسلسل یہ درخواست کرتا چلا آیا تھا کہ ’’تم اس آگ سے مت کھیلو، یہ کل تمہارے گھروں تک بھی آن پہنچے گی۔ مجھے مارچ 1999ء کا عاصمہ جہانگیر کا وہ دفتر یاد آ گیا جب مہمند کی ایک شادی شدہ مغویہ سمیعہ کی ماں اپنے ملازم کے ساتھ روتی بلکتی وہاں آئی اور مسلسل اپنی بیٹی کو واپس لے جانے کے لئے منت سماجت کرتی رہی۔ اتنے میں حنا جیلانی نے چیخ کر کہا ’’چھوڑ دو سمیعہ کو ورنہ میں اپنے باڈی گارڈ کو حکم دوں گی کہ وہ تمہیں گولی مار دے‘‘۔ گولیاں چلیں اور سمیعہ ماری گئی اور ساتھ ہی وہ گھریلو ملازم حبیب الرحمن بھی مارا گیا۔ اگلے دن عاصمہ جہانگیر کے اس پولیس والے گن مین کو شاباشی کے سر ٹیفکیٹ عطا کئے گئے جس نے ان دونوں کو قتل کیا تھا۔ سمیعہ عمران ایک شادی شدہ خاتون تھی جس کو نادر کپتان اغوا کر کے لاہور لایا تھا اور اس شادی شدہ مغویہ کو ’’دستک‘‘ میں پناہ دے دی گئی تھی۔

جہاں اس خاتون سے اغوا کار نادر کپتان کو ملاقات کی مکمل اجازت تھی۔ یہ آج سے 23 سال پرانا واقعہ ہے۔ اس کے بعد جتنے بھی ایسے واقعات ہوئے میں نے ان پر قلم اُٹھایا اور ان حقوقِ نسواں کے پروانوں سے کہا کہ تم اس لڑکی کے لئے تو آواز اُٹھاتے ہو جو اپنی مرضی سے شادی کرنے کے لئے گھر سے بھاگتی ہے، لیکن اس ماں کے لئے کیوں نہیں بولتے جس سے یہ لڑکی چھن جاتی ہے اور وہ بلکتی رہ جاتی ہے۔ اس بہن کے لئے آواز کیوں نہیں اُٹھاتے، جس کے رشتے اس لئے نہیں آتے کہ اس کی بہن گھر سے بھاگ گئی تھی۔ تم نے گھر سے بھاگنے والی ایسی تمام لڑکیوں کو ہمیشہ ’’رول ماڈل‘‘ بنا کر پیش کیا، اور ان کے گھر والوں کو ظالم اور درندے کہا۔ میرے 9 سالہ عدالتی کیریئر میں صرف چار لڑکیوں نے عدالت میں آ کر والدین کی مرضی کے خلاف شادی کی۔ میں نے ان کے والدین کو بلا کر انہیں سمجھانے کی بھر پور کوشش کی، لیکن کوئی اثر نہ ہو سکا۔ مائیں روتی بلکتی رہیں، باپ ہاتھ باندھ کر عزت کا واسطہ دیتے رہے لیکن کچھ نہ ہو سکا۔ میں نے قانون کے ہاتھوں مجبور ہو کر اجازت دی۔ لیکن ان چاروں کا بھیانک انجام یہ ہوا کہ، ایک نے خود کشی کر لی، دو کو سندھ میں جا کر بیچ دیا گیا اور ایک کراچی میں کال گرل بن گئی۔ اپنی مرضی سے شادی کرنے اور گھر سے بھاگ جانے والی لڑکیوں کو یہ ڈرامہ نگار، افسانہ نویس اور انسانی حقوق کے علمبردار ایسے کھیل کا یہ بھیانک انجام کیوں نہیں دکھاتے ۔ انہیں محبت کے دیوی دیوتا کے طور پر کیوں پیش کرتے ہیں۔ آج جب دُعا زہرا کے والدین کے ساتھ شہلا رضا اور انسانی حقوق کے لاتعداد علمبرداروں کو دیکھا تو ایک بار پھر وہ تمام والدین یاد آ گئے، جو کبھی اسی طرح روتے بلکتے، ان عدالتوں میں اپنی پیاری بیٹیوں کے پیچھے بھاگتے پھرتے تھے اور یہ تمام انسانی حقوق اور حقوقِ نسواں کے علمبردار انہیں ظالم اور مذہبی قبائلی اور جاگیرداری عصبیت کے طعنے دیتے ہوئے ان کا تمسخر اُڑاتے تھے۔ دُعا زہرا کی ماں اور باپ کے آنسو ویسے ہی قابلِ احترام ہیں، جیسے سمیعہ خان کی ماں کے آنسو تیئس سال پہلے لاہور میں عاصمہ جہانگیر کے دفتر میں بہے تھے۔ آج یہ سب کے سب اس آگ میں خود جھلس رہے ہیں مگر پھر بھی سچ نہیں بولتے، منافقت سے کام لے رہے ہیں۔

یہ والدین کی رضا مندی کے بغیر شادی کے خلاف نہیں بول رہے ہیں بلکہ یہ لڑکی کی عمر کا بہانہ بنا کر مسئلے کو خراب کر رہے ہیں۔ کیا دُعا زہرا اٹھارہ سال کے بعد اپنی مرضی سے شادی کر لے تو پھر وہ مغویہ نہیں کہلائی جائے گی، پھر اس کی ماں ایسے نہیں روئے گی، باپ ایسے بے تاب نہیں ہو گا؟ خاندان جیسے عظیم ادارے کی عزت و حرمت اور تقدس کے یہ دُشمن، مغرب زدہ لوگ، اسلام کے اس اعلیٰ اخلاقی تصور سے کھیل رہے ہیں کہ ایک کنواری لڑکی کی شادی ولی (باپ) کے بغیر نہیں ہو سکتی اور کوئی ولی (باپ) کنواری لڑکی کی مرضی کے بغیر اس کی شادی نہیں کر سکتا۔ دونوں شادیاں فاصد ہیں، اگر لڑکی باپ کی مرضی کے بغیر کرے یا باپ لڑکی کی مرضی کے بغیر کرے۔ اٹھارہ سال کی عمر مغربی دُنیا کا مسئلہ ہے، اسلام کا نہیں، اسلام تو شادی کے لئے بلوغت کی شرط رکھتا ہے کیونکہ بلوغت کے بعد انسان کی ایک فطری ضرورت شروع ہو جاتی ہے۔ مغرب پرست یہ دلیل دیتے ہیں کہ اٹھارہ سال کے بعد دونوں شادی کا بوجھ اُٹھانے کے قابل ہو جاتے ہیں۔ یعنی لڑکا اٹھارہ سال کا ہوتے ہی اچانک امیر، برسرروزگار اور صاحبِ حیثیت ہو جاتا ہے۔ کیا مذاق ہے۔ جن معاشروں نے شادی کے لئے عمر کی پابندیاں لگائیں، وہاں نوجوانوں نے انہیں ہوا میں اُڑا دیا۔ صرف امریکہ میں غیر شادی شدہ کم سن بچیوں کے ہاں ہر سال دس لاکھ ناجائز بچے پیدا ہوتے ہیں۔ دُعا زہرا کا معاملہ عمر کا نہیں، والدین کی مرضی سے شادی کا ہے۔ اسلام کے اُصول میں ہی نجات ہے کہ ولی کے بغیر لڑکی کی شادی نہیں، اور لڑکی کی مرضی کے بغیر ولی کی کروائی گئی شادی ناجائز ہے۔ آگ گھروں تک آ پہنچی ہے، اب تو پورا سچ بولو اور پورے سچ پر کھڑے ہو جائو۔

Source: 92 news
Must Read Urdu column Ye Aag tum ne Khud Bharkaye thi By Orya Maqbool jan

Leave A Reply

Your email address will not be published.