یہ جنگ دنیا کو کیسے بدل دے گی؟- علی معین نوازش

ali-moeen-nawazish

روس نے آخرکار یوکرین پر حملہ کر ہی دیا، اِس حملے کے بعد سے کچھ لوگ ازراہِ تفنن اور کچھ خوف زدہ ہو کر یہ سوال پوچھ رہے ہیں کہ یہ کہیں تیسری جنگِ عظیم کا آغاز تو نہیں؟ میں نے آخر کار کا لفظ اِس لیے استعمال کیا ہے کہ کئی ہفتوں سے صورتحال اِسی طرف جاتی نظر آرہی تھی۔ یہ جنگ کیوں اور کیسے شروع ہوئی اور اِس کا منطقی انجام کیا ہو گا، اِس حوالے سے بہت سے ذہین اور دانشور لوگ بےشمار کالم لکھ چکے ہیں، یہ طالبِ علم اِس حوالے سے کسی قسم کی کوئی گستاخی نہیں کرنا چاہتا لیکن یہ ضرور کہنا چاہوں گا کہ اِس جنگ نے نئی جنگِ عظیم کو تو بالکل جنم نہیں دیا البتہ اِس دنیا اور اِس کی سمت کو کچھ پہلوؤں میں بدل کے رکھ دیا ہے اور مزید بدلنا ہے۔ آج کے کالم میں جنگ کے اِنہی اثرات کے حوالے سے بات ہوگی۔

دنیا پر اِس جنگ کا سب سے پہلا اور واضح اثر معاشی ہوگا۔ روس تیل کی پیدوار کے حوالے سے دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے اور یورپ روس ہی کے تیل اور گیس پر انحصار کرتا ہے، اِس لیے روس عالمی معیشت میں ایک اہم مقام کا حامل ملک ہے۔ اِس جنگ کا اور جنگ کی وجہ سے روس پر لگائی جانے والی پابندیوں کا پہلا واضح اثر مہنگائی کی صورت میں سامنے آئے گا۔حکومت پہلے ہی مہنگائی کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنی ہوئی ہے،جس میں ایک بڑا کردار اُس کی ناقص پالیسیوں کا بھی ہے۔وزیراعظم نے اپنے خطاب میں بھی اِس کی طرف اشارہ کیا ہے اور یہ خوش آئند ہے کہ اُنہوں نے پیٹرولیم اور بجلی کی قیمتوں میں عوام کو ریلیف دیا ہے لیکن اگر تیل کی قیمتیں عالمی منڈی میں مزید بڑھ گئیں تو اِس ریلیف کا اثر زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکے گا۔ اِس لیے پہلے ہی سے مہنگائی کی چکی میں پسنے والے عوام کیلئے مزید مشکل وقت آنے والا ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ آئی ایم ایف جو پہلے ہی پاکستان پر سخت شرائط لاگو کرتا رہا ہے وہ اِس ریلیف کے حوالے سے کیا ردِ عمل ظاہر کرتا ہے کیونکہ آئی ایم ایف نے ستمبر تک طے شدہ پروگرام کے مطابق پاکستان کو مزید 3ارب ڈالر دینے ہیں،اِس لیے ہم آئی ایم ایف کے پروگرام سے بھی زیادہ آگے پیچھے نہیں ہو سکتے۔

دوسری طرف اِس جنگ کے تناظر میں یورپی یونین دنیا میں اپنا تشخص تبدیل کرنا چاہتی ہے، اُس کی پالیسی میں اب معاشی کیساتھ ساتھ دفاعی تعاون کو بھی اولین ترجیح رکھا جائے گا۔ یورپ اب ایک فوجی قوت کے طور پر بھی اُبھرنے کی کوشش کرے گا۔ چند روز قبل جرمنی نے اپنے دفاعی اخراجات کو جی ڈی پی کا 2فیصد کرنے کا کہہ دیا ہے، جو کہ پہلے سے دوگنا ہو جائے گا۔ یورپ کو یہ احساس ہوا ہے کہ اگر اُن کے دروازے پر دوسری جنگِ عظیم کے بعد اِس طرح کا حملہ ہو سکتا ہے تو اُنہیں اِس کیلئے تیار ہونا پڑے گا۔

پاکستان جیسے ملک کیلئے بھی کچھ اہم چیزیں تبدیل ہوں گی۔ اب دنیا میں واضح بلاکس بنتے نظر آ رہے ہیں اور ایک ہی وقت میں اِن سب بلاکس کی گُڈ بکس میں ہونا آسان نہیں ہوگا۔ بالخصوص روس سے قریب ہونے کی کوشش کے بعد، پابندیوں اور مغرب کے شک، دونوں کے نتیجے میں شاید اب اتنا آسان نہ ہو۔ چین بھی اِس معاملے میں بہت حساس نظر آتا ہے۔ ہماری ایک مجبوری یہ بھی ہے کہ مغرب معیشت کے بڑے اداروں بالخصوص آئی ایم ایف کو کنٹرول کرتا ہے اور یہ صرف مغرب ہی ہے جو آپ کو پیسہ دیتا ہے۔ چین اور روس کی طرف سے پاکستان میں منصوبوں کی اُمید تو لگائی جا سکتی ہے لیکن اِن ممالک سے پاکستان کو براہِ راست زیادہ پیسے نہیں مل سکتے، اگر ملے بھی۔

جب مغربی اور ترقی یافتہ ممالک اپنے دفاع کی طرف زیادہ متوجہ ہوں گے تو ترقی پذیر ممالک میں سماجی منصوبوں کیلئے پیسے کم ہو سکتے ہیں۔ اور چونکہ سرد جنگ کی طرح پراکسی جنگوں کا سلسلہ بھی نظر نہیں آ رہا تو امداد کیلئے غریب ملکوں کو مشکل کا سامنا ہوگا اور مہنگائی اِن مشکلات میں مزید اضافہ کرے گی۔

امریکہ میں کافی تجزیہ نگار یہ سمجھتے ہیں کہ جب ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے صدر تھے تو بین الاقوامی سطح پر امریکہ کا دائرہ اثر کم ہوا تھا اور پھر جو افغانستان میں ہوا، اگر وہ نہ ہوتا تو شاید پیوٹن اتنا بڑا قدم اتنی جلدی نہ اُٹھاتے۔ اب امریکہ خود کو عالمی سطح پر دوبارہ کیسے منواتا ہے، یہ دیکھنے والی بات ہوگی، کیونکہ گزشتہ برسوں میں امریکہ نے چین کیخلاف بھی محاذ کھولا ہے، جس کا آغاز ٹرمپ نے کیا تھا، دوسرا محاذ اب روس کیخلاف کھل گیا ہے۔

اب اِس تناظر میں یہ بھی ممکن ہے کہ مشرق اور مغرب جو ایک دوسرے سے دور ہو رہے تھے، اب اُس میں تیزی آ جائے۔ مثال کے طور پر اب روس پر سوِفٹ نیٹ ورک( جس کے ذریعے دنیا بھر میں پیسے منتقل ہوتے ہیں اور اِس کا ہیڈ کوارٹر بیلجئم میں ہے) کے استعمال پر پابندی لگا دی جائے گی۔ دوسرے چین کے CIPSسسٹم کے 80ممالک ممبر بن چکے ہیں، روس سوِفٹ کی جگہ اِس سسٹم کو استعمال کر سکتا ہے، اِس طرح بیجنگ اور ماسکو کی ڈالر سے پیچھے ہٹنے کی خواہش بھی تیز ہو جائے گی۔یہ تو فنانس سیکٹر کے حوالے سے مشرق اور مغرب کے درمیان ڈی کپلنگ کی صرف ایک مثال ہے، اِسی طرح دیگر سیکٹرز میں بھی ایسی ڈی کپلنگ ہو سکتی ہے۔ اِس لیے اب جو نئے بلاکس بنیں گے، اُن میں پاکستان، جو سب بلاکس کیساتھ اچھے تعلقات چاہتا ہے، کیلئے توازن برقرار رکھنا اتنا آسان نہیں ہوگا۔

اتنا کچھ بدل رہا ہے اور بدل گیا ہے، اب یہ جنگ خواہ جلدی ختم ہو جائے، عالمی اور انفرادی سطح پر اِس کے اثرات بہت دیر پا ثابت ہوں گے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

Must Read Urdu column Ye Jang Dunya ko Kaise Badal de g By Ali Moeen Nawazish
Source: Jang

Leave A Reply

Your email address will not be published.