یہ دکانیں چلتی رہیں گی – جاوید چوہدری

Javed Chaudhry

قدیم یونان کے دماغ سقراط سے کسی شاگرد نے پوچھا ’’یا استاد خوش فہمی کیا ہوتی ہے‘‘ سقراط نے ہنس کر جواب دیا‘ آپ کوئی مشکل ترین کام منتخب کریں‘ اس کے لیے نالائق اور بے ایمان ترین شخص کا انتخاب کریں اور پھر اچھے اور مثبت نتائج کی توقع کریں‘ اس کو خوش فہمی کہتے ہیں‘‘ ۔

ہم اور ہماری سیاسی لاٹ بھی خوش فہمی کے مغالطے کا شکار ہے‘ آج کے دور میںملک چلانا مشکل ترین کام ہے‘ دنیا کی 34 فیصد دولت ٹیکنالوجی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی میں شفٹ ہو چکی ہے‘ لتھونیا جیسا ملک 65 ہزار مربع کلومیٹررقبے اور 28 لاکھ آبادی کے ساتھ صرف نینو اور لیزر ٹیکنالوجی کے ذریعے25 بلین ڈالر کمارہا ہے‘ اس کی ٹوٹل ایکسپورٹس 50 بلین ڈالرز ہیں‘‘۔

سنگا پور 58 لاکھ آبادی کے ساتھ صرف مینجمنٹ سسٹم بیچ کر پورا ملک چلا رہا ہے اور آئس لینڈ میں صرف 3 لاکھ 39 ہزار لوگ رہتے ہیں لیکن یہ ملک بھی سالانہ تین بلین ڈالر کا ایلومینیم بیچ کر خوش حال زندگی گزار رہا ہے‘ انفارمیشن ٹیکنالوجی‘ سوشل میڈیا اور موبائل فون کتنی بڑی مارکیٹ ہے آپ اس کا اندازہ صرف ایک بات سے لگا لیجیے‘ دنیا میں چند ماہ میں فائیو جی ٹیکنالوجی آ رہی ہے‘ یہ ٹیکنالوجی صرف شروع میں 400 بلین ڈالر کی مارکیٹ حاصل کرے گی‘ فائیو جی اس وقت امریکا اور چین کے درمیان تنازع کی شکل اختیار کر چکی ہے۔

چین کی کمپنی ہوآوے فائیو جی بنا چکی ہے‘یہ اسے لانچ کرنا چاہتی ہے جب کہ امریکا میں ابھی کام چل رہا ہے‘ آئی فون (ایپل کمپنی)کے موجودہ ماڈل فائیو جی کو سپورٹ نہیں کرسکتے‘ ایپل اپنی مصنوعات کو اس قابل بنانے کے لیے دھڑا دھڑ کام کر رہی ہے‘ امریکا اپنی کمپنیوں کو مزید وقت دینے کے لیے چین کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کر رہا ہے‘ صدر ٹرمپ نے اسی لیے 15مئی کو پورے امریکا میں ہوآوے کی مصنوعات پر پابندی لگا دی اور ہمارے اپنے ملک میں بھی اس وقت چالیس لاکھ نوجوان گھروںمیں بیٹھ کر انٹرنیٹ کے ذریعے نان نفقہ کما رہے ہیں‘ دنیا بڑی تیزی سے روایتی ہتھیاروں سے غیر روایتی جنگوں کی طرف بھی بڑھ رہی ہے۔

امریکی ماہرین پیشن گوئی کر رہے ہیں 2025ء تک روایتی فوجیں ختم ہو جائیں گی‘ ٹینک‘ طیارے‘ توپیں اور رائفلیں صرف غریب ملکوں تک محدود ہو جائیں گی جب کہ دنیا کے دس بڑے ملک ڈرونز اور بین البراعظمی میزائلوں پر شفٹ ہو جائیں گے‘ امریکا میامی میں 12 ہزارکلومیٹر دور منگولیا کے 25 کلومیٹر کے علاقے کے گرد دائرہ لگائے گا‘ بٹن دبایا جائے گا اور 25 کلو میٹرمیں موجودلوگ‘ درخت‘ پرندے‘ جنگل اور چٹانیں صفحہ ہستی سے مٹ جائیں گے اور چین اور امریکا دس سال سے اسمارٹ فونز کے ذریعے پوری دنیا کا ڈیٹا جمع کر رہے ہیں۔

ہم میں سے جس نے بھی اسمارٹ فون استعمال کر لیا اس کے فنگر پرنٹس‘ چہرہ اور آنکھوں کا پردہ (ریٹنا) امریکی اور چینی سرورز میں محفوظ ہو گیا‘ ہم اس کے بعد دنیا کے کسی بھی کونے میں چلے جائیں چین اور امریکا ہم تک پہنچ جائیں گے‘ آپ کو یاد ہو گا 22جولائی کو صدر ٹرمپ نے عمران خان کے ساتھ گفتگو کے دوران امریکا کے دو یرغمالیوں کے بارے میں بات کی تھی‘ یہ دونوں طالبان کے قبضے میں ہیں اور افغانستان میں ہیں‘ امریکا کو کیسے پتا چلا یہ زندہ ہیں اور کس کے پاس ہیں؟ یہ ٹیکنالوجی کا کمال ہے‘ ٹیکنالوجی پوری دنیا میں چھپے لوگوں کو تلاش کر لیتی ہے‘ یہ ہائی کلاس اور ماڈرن ٹیکنالوجی ہے۔

آپ اگر اس کا نمونہ دیکھنا چاہتے ہیں تو آپ بھی اپنا موبائل فون کھولیے‘ ایک گھنٹہ اس پر لگایے اور آپ اپنے بچپن کے کھوئے ہوئے دوستوں تک پہنچ جائیں گے اور آج سوشل میڈیا کی وجہ سے ہر شخص اینکر بھی ہے اور صحافی بھی‘ لوگ فون نکال کر ویڈیو بناتے ہیں اور یہ ویڈیو شام تک پوری دنیا میں پھیل جاتی ہے‘ یہ ہماری زندگی کے نئے چیلنجز ہیں‘ ان سے نمٹنے اور ان سے فائدہ اٹھانے کے لیے انتہائی زیرک‘ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور سمجھ دار لوگوں کی ضرورت ہے لیکن آپ عوام اور سیاسی جماعتوں کا کمال دیکھیے‘ یہ جب بھی چنتے ہیں‘ یہ انتہائی اہم کام کے لیے انتہائی نالائق‘ ان پڑھ اور بے ایمان لوگوں کا انتخاب کرتے ہیں‘ یہ یقینا ظلم ہے لیکن اس سے بھی بڑا ظلم ان لوگوں سے بھلائی اور نتیجے کی توقع ہے اور یہ وہ خوش فہمی ہے جس نے ہمیں دلدل تک پہنچا دیا۔

آپ ملک کی کسی دور کی اسمبلی کو دیکھ لیجیے‘ آپ کو آدھا ایوان گونگا‘ بہرہ اور ان پڑھ ملے گا‘ آپ کسی کو اٹھا کر اس سے آئین‘ جغرافیے اور تاریخ کے بارے میں پوچھ لیجیے‘ آپ کو پسینے آ جائیں گے‘ آپ ان لوگوں کو بنیادی باتوں تک سے نابلد پائیں گے‘ یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے یہ لوگ پھر صوبائی اور قومی اسمبلی میں کیسے پہنچ جاتے ہیں‘ یہ ملک کے مقدس ترین ایوان یعنی سینیٹ تک کیسے آ جاتے ہیں؟

یہ لوگ ہمارے سسٹم میں موجود دو سوراخوں کے ذریعے ایوانوں تک آتے ہیں‘ اثرورسوخ اور پیسہ اور پھر آکر پورے ملک کی مت مار دیتے ہیں‘ ہماری سیاسی جماعتوں میں بھی دو خامیاں ہیں‘ لیڈرز صرف جیتنے والے گھوڑے پسند کرتے ہیں‘ یہ صرف اسے ٹکٹ جاری کریں گے جو ٹکٹ ضایع نہ کرے‘ جو جیت کر انھیں وزیراعظم یا وزیراعلیٰ بنوا دے یا پھر وہ لوگ جو لیڈروں پر کثیر سرمایہ خرچ کر سکیں‘ جو لیڈروں کو قیمتی گاڑیاں گفٹ کر سکیں‘ انھیں گھر‘ فلیٹس اور پلاٹ دے سکیں‘ فیکٹریاں بنا کر دے دیں یا پھر سال دو سال تک ان کے دفتروں اور گھروں کے اخراجات کی ذمے داری اٹھاسکیں اور یہ وہ کوالیفکیشنز ہیں جن کے ذریعے یہ لوگ صوبائی اسمبلی‘ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ٹکٹ کے حق دار بن جاتے ہیں اور یہ ایوانوں میں پہنچ کر مزید جوتے سیدھے کرتے ہیں۔

میڈیا پر الٹے سیدھے بیان جاری کرتے ہیں اور وزارت لے لیتے ہیں اور پھر ان وزارتوں اور محکموں کا وہ حشر ہوتا ہے کہ اللہ دے اور بندہ لے‘ ہم نے کبھی سوچا ہماری سینیٹ کی حالت کیوں زیادہ خراب ہے؟ سیدھی بات ہے یہ ایوان اسٹاک ایکسچینج یا منڈی بن چکا ہے‘ ٹکٹوں کے لیے باقاعدہ بولیاں لگتی ہیں‘ لیڈرز ٹکٹ فروخت کرتے ہیں‘ آخری الیکشن میں ٹکٹ 25 کروڑ روپے تک چلے گئے تھے‘ پھر ٹکٹ ہولڈرز صوبائی اسمبلیوں کے ارکان خریدتے ہیں اور یوں سینیٹر بن جاتے ہیں‘ سینیٹ کے پچھلے الیکشن میں کے پی کے میں پاکستان پیپلز پارٹی کے صرف سات اورپنجاب اسمبلی میں پی ٹی آئی کے 30ایم پی اے تھے۔

پیپلز پارٹی کے پی کے اور پاکستان تحریک انصاف پنجاب سے کوئی نشست جیتنے کی پوزیشن میں نہیں تھی لیکن آصف علی زرداری نے کے پی کے میں 7ایم پی ایز کے ساتھ دوسینیٹر الیکٹ کرا لیے اور پی ٹی آئی پنجاب سے ایک سینیٹر لے آئی‘ چوہدری سرور نے پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر پنجاب سے سینیٹ کا الیکشن لڑا تھا‘ ان کو 44ووٹ درکار تھے‘ ان کے پاس 30ووٹ تھے لیکن جب نتیجہ نکلا تو یہ سینیٹر بن چکے تھے‘ چوہدری سرور نے ن لیگ کے 14ووٹ چرا لیے اور آصف علی زرداری نے کے پی کے سے پی ٹی آئی کے 16ووٹ ہتھیا لیے‘ آپ اس سے سینیٹ کے تقدس کا اندازہ کر لیجیے۔

ملک کی تینوں بڑی پارٹیوں کے قائدین سینیٹ میں ووٹوں کی خرید وفروخت کا الزام بھی لگا چکے ہیں اور نظام کی خرابی تسلیم بھی کر چکے ہیں لیکن یہ سسٹم اس کے باوجود جاری اور ساری ہے‘ کوئی اسے روکنے کے لیے تیار نہیں‘ کیوں؟ کیوں کہ اس سے پارٹیوں کا نان نفقہ چلتا ہے‘ یہ لوگ وہ کانیں ہیں جن سے لیڈر سونا نکالتے ہیں چناں چہ یہ انھیں کیوں بند کریں گے؟ میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری دونوں اس معاملے میں زیادہ بدنام ہیں‘ یہ ذاتی وفاداروں اور رئیس دونوں قسم کے لوگوں کو سینیٹ کے ٹکٹ دیتے ہیں‘ نواز شریف نے مارچ 2018ء کے سینیٹ الیکشن میں زبیر گل کو ٹکٹ دے دیا تھا‘ اس شخص کی واحد کوالیفکیشن یہ تھی یہ لندن میں ہر وقت میاں نواز شریف کے پیچھے کھڑا ہوتا تھا‘ میاں نواز شریف جوں ہی لندن کی سرزمین کو چھوتے تھے یہ جِن کی طرح حاضر ہو جاتا تھا چناں چہ میاں نواز شریف نے اسے ملک کے مقدس ترین ایوان کا حق دار سمجھ لیا۔

میں آج بھی دعوے سے کہتا ہوں میاں نواز شریف جب بھی اقتدار میں آئیں گے یہ ناصر بٹ کو سینیٹ کا ٹکٹ ضرور دیں گے اور اگر یہ نہ ہو سکا تو ناصر بٹ وزیراعظم کے اسپیشل ایڈوائزر ضرور بنیں گے‘ کیوں؟ کیوں کہ ناصر بٹ نے جج ارشد ملک کی ویڈیو بنائی تھی اوریہ سینیٹ کے لیے کوئی چھوٹی کوالیفکیشن نہیں‘ شاہد خاقان عباسی نے ہمارے شو میں انکشاف کیا تھا جنوری 2018ء میں بلوچستان حکومت توڑنے اور سینیٹ الیکشن کے لیے چار ارب روپے خرچ کیے گئے تھے اوریہ آئی بی کی رپورٹ تھی‘ آپ ملاحظہ کیجیے سرکاری اداروں کی کھلی آنکھوں کے نیچے کیا ہو رہا تھا اور کسی نے یہ ایشو اٹھایا اور نہ کسی کا محاسبہ کیا لہٰذا حالات جب یہ ہوں گے‘ جب لیڈر ہی کم زور اور بے ایمان لوگوں کا انتخاب کریں گے تو پھر یکم اگست جیسے سانحے کیوں نہیں ہوں گے؟پھر سینیٹرز کیوں نہیں بکیں گے‘ پھر یہ لیڈر شپ کو دھوکا کیوں نہیں دیں گے؟

آپ کو شاید یہ جان کر حیرت ہو یکم اگست کو صادق سنجرانی کو ووٹ دینے والوں میں ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے سینیٹرز کے ساتھ ساتھ جے یو آئی ایف اور حاصل بزنجو کی پارٹی نیشنل پارٹی آف پاکستان کے سینیٹرز بھی شامل تھے‘ آپ ان لوگوں کا معیار ملاحظہ کیجیے ایک سینیٹر نے صرف پچاس لاکھ روپے میں اپنی وفاداری بد لی اور یہ پچاس لاکھ بھی اسے تین لوگوں نے مل کر ادا کیے۔

میں الیکشن کے بعد قائدین کے چہرے دیکھ رہا تھا‘ ان پر غصے‘ شرمندگی اور بے بسی کے انبار لگے تھے لیکن سوال یہ ہے اس کا ذمے دار کون ہے؟ کیا منحرف ہونے والے سینیٹرز ؟ جی نہیں اس کے ذمے دار یہ لیڈرز خود ہیں‘ یہ لوگ ان لوگوں کو ٹکٹ دیتے وقت یہ بھول گئے تھے جو شخص ان کے جوتے اٹھا سکتا ہے یا جو ہم سے ٹکٹ خرید رہا ہے وہ کل کو کوئی بڑا جوتا بھی اٹھائے گا اور وہ بڑی دکان پر بھی بکے گا‘ سانپ کی فطرت ڈسنا ہوتا ہے‘ آپ جب سانپ پالیں گے تو پھر یہ سانپ کبھی نہ کبھی آپ کو بھی ضرور ڈسیں گے اور یہ لوگ یکم اگست کو ڈسے گئے۔مجھے یقین ہے یہ لوگ بے وفا سینیٹرز سے واقف ہیں لیکن یہ ان کا محاسبہ نہیں کریں گے‘ کیوں؟ کیوں کہ یہ سینیٹرز دکانیں ہیں اور لیڈرز گاہک اور کوئی گاہک کوئی دکان بند نہیں ہونے دیتا‘ اس میں اس کا زیادہ نقصان ہوتا ہے اور یہ لوگ اپنا معاشی نقصان نہیں ہونے دیں گے۔

Source

Must Read urdu column Yeh dukanen chalti rahen ge By Javed Chaudhry

Leave A Reply

Your email address will not be published.