عبدالصمد اچکزئی اور مولانا ظفر علی خان – حامد میر

hamid-mir

کیا عبدالصمد خان اچکزئی کے برخوردار کو اپنے والد محترم کے بارے میں مولانا ظفر علی خان کے لکھے گئے اداریوں اور نظموں سے کچھ آگاہی ہے؟ مولانا ظفر علی خان کو بابائے صحافت کہا جاتا ہے۔ وہ لاہور سے روزنامہ زمیندار شائع کرتے تھے۔ برطانوی راج پر تنقید کی وجہ سے یہ اخبار پندرہ مرتبہ ضبط ہوا۔ مولانا کی زندگی کے بارہ سال اپنی حق گوئی کے باعث جیلوں میں گزرے۔

پنجاب کے گورنر مائیکل ایڈوائر نے اپنی حکومت کو لندن بھجوائی گئی ایک رپورٹ میں لکھا کہ ظفر علی خان اور محمد علی جوہر ماں کے پیٹ سے بغاوت کا قلم لیکر نکلے ہیں اور انگریز دشمنی اُن کی فطرت میں شامل ہے۔

1934میں عبدالصمد خان اچکزئی گرفتار ہوئے تو مولانا ظفرعلی خان نے 9فروری 1934کو ’’انقلابِ بلوچستان‘‘ کے نام سے نظم لکھی جو زمیندار لاہور کے صفحۂ اول پر شائع ہوئی۔ اِس نظم میں اُنہوں نے فرمایا:

عبدالعزیز کُرد پر ایوبیوں کو فخر

عبدالصمد کی ذات پر نازاں اچکزئی

پھر کر رہے ہیں بادشاہوں سے مقابلہ

پتھر جنہوں نے پیٹ پر باندھے کئی کئی

میر عبدالعزیز کُرد اور عبدالصمد اچکزئی نے حیدر آباد میں ہونے والی بلوچ کانفرنس میں تقریریں کی تھیں۔ کُرد صاحب نے ’’زمیندار‘‘ میں ایجنٹ ٹو گورنر جنرل بلوچستا ن کے خلاف ایک پُرجوش مضمون بھی لکھا۔ 22مارچ 1934کے اخبار میں مولانا ظفر علی خان نے ’’مجاہدینِ بلوچستان‘‘ کے عنوان سے اپنی نظم میں اُن اسیروں کے متعلق لکھا:

ہیں اُس کے زعیموں میں کُرد اور اچکزئی

وہ شانِ بلوچستان یہ آنِ بلوچستان

دونوں نظمیں مولانا ظفر علی خان کی کتاب ’’نگارستان‘‘ میں موجود ہیں۔

مولانا ظفر علی خان مسلم لیگ جبکہ عبدالصمد خان اچکزئی کانگریس کے حامی تھے لیکن دونوں برطانیہ کی غلامی سے آزادی حاصل کرنا چاہتے تھے۔ مولانا ظفر علی خان اِن دونوں کو میر یوسف عزیز مگسی کے ذریعہ جانتے تھے۔

مگسی صاحب نے سب سے پہلے لاہور کے اخبارات میں بلوچستان کیلئے آواز بلند کرنا شروع کی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب لاہور کے اردو اخبارات جموں و کشمیر اور بلوچستان سمیت ہندوستان بھر کی آزادی پسندوں کے ترجمان تھے۔ جب عبدالصمد خان اچکزئی نے ’’استقلال‘‘ کے نام سے اپنا اردو اخبار شروع کیا تو اُس کا ڈیکلریشن بھی انہوں نے لاہور سے لیا۔

یہ وہی لاہور تھا جہاں 13دسمبر 2020کو عبدالصمد اچکزئی کے برخوردار محمود خان اچکزئی نے پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے اہلِ لاہور سے کچھ ایسے شکوے کئے جو پورا سچ نہیں تھے۔

اُنہوں نے کہا کہ ہندوستان کے باقی رہنے والوں کے ساتھ لاہوریوں نے بھی تھوڑا سا انگریزوں کا ساتھ دیا اور سب نے مل کر افغان وطن پر قبضے کیلئے انگریزوں کی مدد کی۔ اچکزئی صاحب کی تقریر میں جنرل ایوب خان کا بھی ذکر تھا، جو ترین پٹھان تھے اور اچکزئی صاحب نے خود بتایا کہ جنرل یحییٰ خان بھی قزلباش پٹھان تھے۔

ٹی وی چینلز نے اُن کی مکمل تقریر نشر نہیں کی ورنہ لوگوں کو وہ تناظر سمجھ آجاتا جس میں اُنہوں نے اہلِ لاہور سے شکوہ کیا۔ اُن کی اِس تقریر پر حکومت کے وزراء نے اُن کی بھی مذمت کی اور اُن کے والد کو بھی بار بار غدار کہا۔ اخبارات میں ابھی تک اُن کی تقریر پر بحث جاری ہے۔ کچھ کالم نگار بعض کتابوں کے حوالے دے کر سب اچکزئیوں پر جوابی حملے کر رہے ہیں جو مناسب نہیں۔

جس طرح پنجابیوں میں احمد خان کھرل اور بھگت سنگھ جیسے بہادر موجود تھے جنہوں نے انگریزوں کے خلاف جدوجہد میں جان قربان کر دی اِسی طرح بلوچوں، پختونوں، سندھیوں، کشمیریوں اور دیگر قومیتوں میں بھی ایسے جانباز موجود تھے جن پر ہم فخر کر سکتے ہیں۔ نفرت پھیلانا اور بےبنیاد الزام لگانا سب سے آسان کام ہے۔ تاریخ سے مستند حوالے تلاش کرنا اور سچائی سامنے لانا ذرا مشکل ہے۔ آئیے یہ مشکل کام کرتے ہیں۔ محمود خان اچکزئی کو یہ بتانا بہت ضروری ہے کہ وہ کون سے لاہوری تھے جنہوں نے انگریزوں کا ’’تھوڑا سا‘‘ ساتھ دیا؟

اُنہیں یہ بھی بتانا ضروری ہے کہ لاہوریوں اور پنجابیوں نے افغانستان پر حملوں میں پہل کی یا افغانوں نے پنجاب پر حملوں میں پہل کی؟ یہ تو سب جانتے ہیں کہ محمود غزنوی کہاں سے آئے تھے لیکن لاہور والوں نے کبھی افغانوں سے تعصب برتا، نہ اُن کے ساتھ دشمنی پالی۔ غزنی سے آنے والے ایک افغان حضرت علی ہجویری ؒکو لاہور والوں نے سر آنکھوں پر بٹھایا اور آج بھی لاہور کی اصل پہچان ’’داتا کی نگری‘‘ ہے۔

اگر ہم پروفیسر ڈاکٹر عاشق محمد خان درانی کی ’’تاریخِ افغانستان‘‘ پڑھیں تو پتا چلتا ہے کہ احمد شاہ ابدالی نے ہندوستان پر نو مرتبہ حملہ کیا۔ اُس میں ایک حملہ حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی کی دعوت پر کیا گیا تھا جس کا مقصد مسلمانوں کو مرہٹوں کے ظلم سے بچانا تھا لیکن جب ابدالی بابا نے لاہور پر حملہ کیا تو یہاں مسلمانوں کی حکومت تھی اور اسلام کو کوئی خطرہ نہیں تھا۔ لاہور کے حکمران میر معین الملک نے کچھ مزاحمت کے بعد احمد شاہ ابدالی کے سامنے ہتھیار ڈال دیے اور لاہور کے علاوہ ملتان بھی مملکتِ افغانستان کا حصہ بن گئے۔

1760میں احمد شاہ ابدالی نے ہندوستان پر آخری حملہ کیا تو علی خان قزلباش بھی اُن کے ساتھ تھا۔ علی خان کا پوتا علی رضا انگریزوں کے ساتھ مل گیا اور 1839میں کابل کا چیف ایجنٹ بنا۔ جب انگریزوں کو افغانستان میں شکست ہوئی تو وہ اُن کے ساتھ لاہور آ گیا۔ 1857کی بغاوت میں علی رضا نے انگریزوں کی بھرپور مدد کی۔

لاہور کی میاں میر چھائونی میں مقامی سپاہیوں کی بغاوت کی تفصیلات پروفیسر عزیز الدین احمد کی کتاب ’’پنجاب اور بیرون حملہ آور‘‘ میں پڑھ لیں لیکن علی رضا نے انگریزوں کی جو مدد کی وہ وکیل انجم کی مشہور کتاب ’’سیاست کے فرعون‘‘ میں موجود ہے۔ انگریزوں نے علی رضا کو سردار بہادر اور اُس کے بیٹے نوازش علی کو نواب کا خطاب دیا اور پھر اِسی خاندان کے چشم و چراغ نواب مظفر علی قزلباش یونینسٹ پارٹی میں شامل ہو کر انگریزوں کے خدمت گزار بنے۔ جنرل یحییٰ خان بھی قزلباش تھے اور اُنہوں نے مظفر علی قزلباش کو اپنا وزیر خزانہ بنایا۔

میر گل خان نصیر کی کتاب ’’تاریخِ بلوچستان‘‘ میں اُن کاکڑوں کا ذکر ہے جنہوں نے 1840میں کوئٹہ میں انگریزوں پر حملہ کیا اور انگریزوں نے اُن کی سرکوبی کیلئے قلعہ عبداللہ کے سالو خان اچکزئی کی مدد حاصل کی۔ اِس کا مطلب یہ بالکل نہیں کہ تمام اچکزئی انگریزوں کے ساتھ تھے۔ جب عبدالصمد خان اچکزئی نے افغانستان کے حکمران غازی امان اللہ کی حمایت شروع کی تو پنجاب میں علامہ اقبال ؒ اور مولانا ظفر علی خان بھی غازی امان اللہ کی حمایت کر رہے تھے۔ عبدالصمد اچکزئی بھی بار بار گرفتار ہوتے رہے اور مولانا ظفر علی خان بھی بار بار گرفتار ہوئے۔

مولانا ظفر علی خان کا اردو اخبار صرف عبدالصمد اچکزئی نہیں، پورے بلوچستان کی آواز بنا۔ قیامِ پاکستان کے بعد عبدالصمد خان اچکزئی نیپ میں شامل تھے پھر اُنہوں نے الگ پارٹی بنالی۔ 1970میں بلوچستان اسمبلی کے رکن بنے۔ اُنہوں نے پاکستان سے وفاداری کا حلف اُٹھایا لہٰذا محمود خان اچکزئی کی مخالفت میں اُن کو آج بھی برا بھلا کہنا قابلِ مذمت ہے۔

عبدالصمد اچکزئی بلوچستان میں نیپ اور جے یو آئی کی مخلوط حکومت کی اپوزیشن میں شامل تھے۔ جب ذوالفقار علی بھٹو نے بلوچستان کی صوبائی حکومت کو برطرف کر دیا تو کچھ عرصہ بعد اچکزئی صاحب ایک بم حملے میں شہید کر دیے گئے۔ اُس وقت اکبر بگٹی بلوچستان کے گورنر تھے۔

تحریک انصاف کے وزراء سے گزارش ہے کہ محمود خان اچکزئی پر تنقید ضرور کریں لیکن عبدالصمد اچکزئی کے بارے میں نامناسب زبان استعمال کرکے مزید نفرت نہ پھیلائیں۔ محمود خان اچکزئی سے گزارش ہے کہ پنجاب پر تنقید ضرور کریں لیکن آدھا سچ نہ بولیں، پورا سچ بولیں۔

اُن کے افغان وطن پر حملے میں پہل لاہور والوں نے نہیں کی تھی۔ جنہوں نے حملے میں پہل کی اُنہیں ہم نے غوری میزائل اور غزنوی میزائل کا نام دے رکھا ہے۔

Source: Jung News

Read Urdu column Abdul Samad Achakzai aur Mulana Zafar ali khan By Hamid Mir

Leave A Reply

Your email address will not be published.