بے بس پارلیمینٹ کا نوحہ – حامد میر

hamid-mir

کئی حکومتیں آئیں اور چلی گئیں، کئی آرمی چیف آئے اور چلے گئے لیکن لاپتہ افراد کا مسئلہ حل ہونے کی بجائے پہلے سے زیادہ پیچیدہ ہو چکا ہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ 2016ءمیں آرمی چیف بنے تو انہوں نے ایک دفعہ نہیں بلکہ کئی دفعہ لاپتہ افراد کا مسئلہ حل کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔اس سلسلے میں انہوں نے تین مختلف حکومتوں کے ساتھ مل کر کوششیں بھی کیں لیکن مسئلہ حل نہ ہوا۔

جنرل باجوہ چھ سال میں یہ مسئلہ حل نہ کر سکے تو کیا نیا آرمی چیف اگلے تین سال میں یہ مسئلہ حل کر سکے گا؟سوال یہ ہے کہ ہم سب اس مسئلے کے حل کیلئے آرمی چیف کی طرف کیوں دیکھتے ہیں ؟وجہ بڑی واضح ہے ،یہ مسئلہ فوجی حکومتوں کے دور میں شروع ہوا اور سیاسی حکومتیں بھی اس مسئلے کے حل کیلئے فوج کی طرف ہی دیکھتی ہیں ۔موجودہ حکومت نے پچھلے ماہ پارلیمینٹ سے کریمنل لاز امینڈمنٹ بل 2022ءمنظور کرایا جس کے تحت جبری گمشدگی کو جرم قرار دیا گیا اور جبری گمشدگی میں ملوث افراد کے لئے قید اور جرمانے کی سزا رکھی گئی۔ یہ وہی بل ہے جو عمران خان کے دور حکومت میں قومی اسمبلی سے منظور کرا کے سینیٹ کو بھیجا گیا تو راستے میں لاپتہ ہو گیا تھا۔اس بل میں یہ دفعہ بھی شامل تھی کہ اگر کوئی کسی ادارے پر جبری گمشدگی کا الزام ثابت نہ کر سکے تو اسے پانچ سال قید اور جرمانے کی سزا ملے گی۔انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس بل کو مسترد کر دیا لہٰذا شہباز شریف کے دور حکومت میں ان کے ایک اتحادی اختر مینگل اور وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے مل کر اس متنازعہ دفعہ کو بل سے نکلوا دیا اور کچھ عرصے کے بعد اعظم نذیر تارڑ بھی وزارت قانون سے نکل گئے ۔اس بل کی منظوری کے بعد بھی بلوچستان میں نوجوانوں کو لاپتہ کیا جا رہا ہے جو موجودہ پارلیمینٹ کی بے بسی کا ایک منہ بولتا ثبوت ہے۔اسلام آباد ہائیکورٹ کے سابق چیف جسٹس اطہر من اللہ نے گزشتہ سال ایک صحافی مدثر نارو کی گمشدگی پر مقدمے کی سماعت شروع کی تھی۔ مدثر نارو کو اگست 2018ء میں فیس بک پر انتخابات کے بارے میں ایک متنازعہ جملہ پوسٹ کرنے کے بعد غائب کیا گیا۔اسلام آباد ہائیکورٹ نے براہ راست وزیر اعظم عمران خان سے جواب طلب کیا۔عمران خان نے عدالت کو یقین دلایا کہ مدثر نارو کو جلد بازیاب کرایا جائے گا۔

عمران خان عدالت کےساتھ کیا جانے والا وعدہ پورا نہ کر سکے ان کے بعد شہباز شریف وزیراعظم بنے عدالت نے ان کو بھی طلب کیا۔ شہباز شریف نے بھی عدالت میں کھڑے ہو کر وعدہ کیا کہ وہ مدثر نارو کو بازیاب کرائیں گے۔عدالت میں انہوں نے مدثر نارو کے چار سالہ بیٹے سچل اور اسکی بوڑھی دادی سے بھی وعدہ کیا کہ مدثر واپس ضرور آئے گا۔پھر جسٹس اطہر من اللہ سپریم کورٹ چلے گئے ۔اگلی پیشی پر وزیر اعظم صاحب عدالت نہیں آئے اور مدثر نارو کی والدہ روتی پیٹتی رہ گئی ۔

ایک عدالت میں دو وزرائے اعظم اپنا وعدہ پورا نہ کر سکے لاپتہ افراد کے مسئلے نے اس ملک کی پارلیمینٹ کو نہیں بلکہ قانون کو مذاق بنا کر رکھ دیا ہے ۔ستم ظریفی دیکھئے کہ بلوچستان کے علاقے کوہلو سے تعلق رکھنے والی ایک سکول ٹیچر زرینہ مری 2005ءسے اپنے شیر خوار بچے سمیت لاپتہ ہے اس کا کوئی سراغ نہیں مل سکا۔

مسعود جنجوعہ 2005ء سے لاپتہ ہیں انکی اہلیہ آمنہ مسعود جنجوعہ سترہ سال سے خاوند کی بازیابی کیلئے عدالتوں میں دھکے کھا رہی ہیں لیکن انہیں انصاف نہ ملا ۔ڈاکٹر دین محمد بلوچ ایک سرکاری ملازم تھے 2009ء سے غائب ہیں انکی بیٹیاں اپنے باپ کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے جوان ہو گئیں لیکن انصاف نہیں ملا۔ذاکر مجید بلوچ انگریزی ادب کا طالب علم تھا 2009ء سے لاپتہ ہے اسکی والدہ کو میں کبھی کوئٹہ، کبھی کراچی اور کبھی اسلام آباد کی سڑکوں پر دھکے کھاتے دیکھتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ جس ریاست کو مائیں، بہنیں اور بیٹیاں بددعائیں دیں اس ریاست کو کیسے چین نصیب ہو سکتا ہے؟علی اصغر بنگلزئی کا اغوا اکتوبر 2001ء میں ہوا تھا ۔وہ ایک درزی تھا اس نے کسی مشکوک آدمی کے کپڑے سیئے تھے اسے ایک ساتھی سمیت اٹھا لیا گیا بعد میں ساتھی کو چھوڑ دیا اور علی اصغر بنگلزئی اکیس سال سے غائب ہے انکی اہلیہ اور دو بیٹیاں بھی بنگلزئی کے انتظار میں بوڑھی ہو رہی ہیں پچھلے سال ایک نوجوان شاعر تابش وسیم بلوچ کو غائب کیا گیا تو میرے سمیت کئی صحافیوں نے اسے فوری طور پر کسی عدالت میں پیش کرنے کا مطالبہ کیا۔پھر جب بلوچستان میں لاپتہ افراد کو مار کر انکی لاشیں سڑکوں پر پھینکنے اور جعلی مقابلوں کا سلسلہ شروع ہوا تو وائس آف بلوچ مسنگ پرسنز نے گورنر ہائوس بلوچستان کے باہر احتجاج کا سلسلہ شروع کیا۔ اس احتجاج کو ختم کرانے کیلئے وزیر داخلہ رانا ثناءاللہ اور وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کوئٹہ پہنچے ۔مظاہرین نے انہیں پچاس لاپتہ افراد کی ایک فہرست دی اور صرف یہ مطالبہ کیا کہ انہیں جعلی مقابلے میں مارنے کی بجائے کسی عدالت میں پیش کیا جائے۔

وفاقی وزراءنے یہ مطالبہ تسلیم کر لیا اور کئی ہفتے تک جاری رہنے والا مظاہرہ ختم ہو گیا۔کچھ دن بعد پچاس لاپتہ افراد کی فہرست میں شامل تابش وسیم بلوچ کی ایک مقابلے میں ہلاکت کا اعلان کر دیا گیا۔یہ وہ واقعات ہیں جن کے باعث ریاست اور اس کے اداروں کے خلاف غلط فہمیاں اور عدم اعتماد بڑھ رہا ہے ۔ اب یہ کہہ کر معاملہ ختم نہیں کیا جا سکتا کہ تمام لاپتہ افراد دہشت گرد ہیں اگر سب دہشت گرد ہیں تو پچھلے کچھ عرصے میں بہت سے لاپتہ افراد کو رہا کیوں کیا گیا؟

لاپتہ افراد کی بازیابی کا تعلق آئین و قانون کی بالادستی سے ہے ۔پارلیمینٹ نے یہ مسئلہ حل کرنے کیلئے کریمنل لاز امینڈمنٹ بل 2022ءمنظور کیا۔بل منظور کرانے والے وزیر قانون کی قربانی بھی دیدی گئی۔

 اب اس بل پر عملدرآمد کرایا جائے۔ جنرل باجوہ کے دور میں جو مسئلہ حل نہ ہوسکا اس مسئلے کو نئے آرمی چیف اپنے لئے چیلنج سمجھیں، نئے آرمی چیف کو یہ تاثر ختم کرنا ہوگا کہ وہ پارلیمینٹ سے زیادہ طاقتور ہیں وہ لاپتہ افراد کا مسئلہ حل کریں اور قوم کی مائوں بیٹیوں کی دعائیں لیں تو ہم آپ کو سلیوٹ کریں گے۔

Source: Jung

Must Read Urdu Column Bay Bus Parliament ka Nohha by Hamid Mir

Leave A Reply

Your email address will not be published.