بھٹو کیوں زندہ ہے؟ – حامد میر

hamid-mir

کیا آپ جانتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کے بعد راولپنڈی جیل میں ان کی لاش ایک فوٹو گرافر کے حوالے کر دی گئی اور یہ فوٹو گرافر لاش کا پاجامہ اتار کر بھٹو صاحب کے پوشیدہ اعضاء کی تصاویر بناتا رہا؟ اس جیل کے سکیورٹی انچارج کرنل رفیع الدین نے اپنی کتاب ’’بھٹوکےآخری 323دن ‘‘میں لکھا ہے کہ یہ فوٹو اس لئے بنوائے گئے تاکہ معلوم ہو سکے کہ ان کے ختنے ہوئے تھے یا نہیں؟ جنرل ضیاءالحق کی حکومت نے جیل حکام کو بتایا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کی ماں ہندو تھی جسے ان کے والد نے زبردستی اپنی بیوی بنایا تھا اور بھٹو صاحب کا اصلی نام نتھا رام تھا تاہم کرنل رفیع الدین نے گواہی دی ہے کہ جب فوٹوگرافر نے بھٹو صاحب کے جسم کے درمیانی حصے کے بہت نزدیک سے فوٹو لئے تو پتا چلا کہ ان کا اسلامی طریقے سے ختنہ ہوا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی موت کو کئی دہائیاں گزر گئیں لیکن ان کی موت آج بھی ایک راز ہے۔ کرنل رفیع الدین نے لکھا ہے کہ جب بھٹو صاحب کو پھانسی دی گئی تو وہ بھوک ہڑتال پر تھے اور جیل میں ان پر کوئی تشدد نہیں کیا گیا تھا لیکن بیگم نصرت بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو کو یقین تھا کہ بھٹو صاحب کو پھانسی سے پہلے ہی قتل کردیا گیا تھا۔ بیگم نصرت بھٹو نے روزنامہ جنگ کے لئے مجھے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے کا دعویٰ کیا گیا لیکن ان کی گردن ٹوٹی نہ گردن پر پھانسی کا کوئی نشان تھا۔ یہ انٹرویو جی این مغل کی بیگم نصرت بھٹو کے بارے میں کتاب ’’مادرِ جمہوریت‘‘ میں شامل ہے۔1992ءمیں بیگم صاحبہ کا یہ انٹرویو شائع ہوا اور اسی زمانے میں صادق جعفری کی کتاب(WAS BHUTTO KILLED BEFORE HANGING?)’’کیا بھٹو کو پھانسی سے پہلے مار دیا گیا؟‘‘شائع ہوئی۔ اس کتاب میں ذوالفقار علی بھٹو کی نماز جنازہ پڑھانے والے مولوی محمود احمد بھٹو اور بھٹو خاندان کے ایک ملازم عبدالقیوم تنولی سمیت ایسے کئی عینی شاہدوں کے بیانات شامل ہیں جن کا دعویٰ تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کی گردن سلامت تھی اور پھانسی کا کوئی نشان نہیں تھا۔ 1979ء میں بریگیڈیئر تفضل حسین صدیقی آئی ایس پی آر کے سربراہ تھے۔ انہوں نے اپنے ایک نوجوان افسر کیپٹن صولت رضا کو ایک فلم ایڈیٹنگ کے لیے دی تھی جس میں بھٹو صاحب کا جسدِ خاکی نظر آ رہا تھا۔ صولت رضا بریگیڈیئر بن کر ریٹائر ہوئے تو انہوں نے ایک کالم میں لکھا کہ ’’یہ غسلِ میت سے پہلے کا منظر تھا‘‘۔ اسی کالم میں بریگیڈیئر (ر) صولت رضا نے لکھا کہ ’’اللہ شاہد ہے کہ پھانسی کے شارٹس اس فلم میں نہیں تھے‘‘۔ ایڈیٹنگ کے بعد یہ فلم میجر جنرل مجیب الرحمٰن کے حوالے کردی گئی۔ صولت رضا کی یہ گواہی ان کی کتاب ’’غیر فوجی کالم‘‘ میں محفوظ ہو چکی ہے۔ جنرل ضیاء الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کے جسد خاکی کے فوٹو اور فلم کیوں بنوائی؟

جنرل ضیاء اچھی طرح جانتے تھے کہ وہ ایک ایسے شخص کو قتل کر رہے تھے جس کے لیے دنیا بھر سے جان بخشی کی اپیلیں کی جا رہی تھیں۔ ترکی کے وزیراعظم بلند ایجوت نے پیشکش کی تھی کہ اگر بھٹو کی جان بخش دی جائے تو بھٹو سیاست نہیں کریں گے اور ترکی کے مہمان بن کر رہیں گے لیکن بھٹو نے اس قسم کے کسی معاہدے میں کوئی دلچسپی ظاہر نہ کی۔ جنرل ضیاء یہ بھی جانتا تھا کہ مردہ بھٹو اس کے لیے زندہ بھٹو سے زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتا ہے لہٰذا مردہ بھٹو کی کردارکشی کے لئے ان کے جسد خاکی کی بے حرمتی کی گئی۔ برہنہ جسم کی تصویریں اور فلم دیکھ کر جنرل ضیاء کو کتنا غصہ آیا ہو گا؟ کتنی مایوسی ہوئی ہوگی؟ بھٹو کے ختنوں نے بھی جنرل ضیاء کو شکست دے دی۔ بھٹو کی موت کے بعد سے مسلسل یہ نعرہ گونج رہا ہے ’’کل بھی بھٹو زندہ تھا آج بھی بھٹو زندہ ہے‘‘۔ بھٹو کے سارے دشمن مرگئے بھٹو آج بھی کیوں زندہ ہے؟ بھٹو کی موت نے پاکستان کو مضبوط نہیں کمزور کیا۔ جنرل ضیاء کہتا تھا کہ وہ بھٹو کے بارے میں عدالتی فیصلے پر عمل درآمد کرکے قانون کی بالادستی قائم کرے گا لیکن جن ججوں نے بھٹو کی پھانسی کا فیصلہ دیا انہی میں سے ایک جج جسٹس نسیم حسن شاہ نے اپنی کتاب میں یہ اعتراف کیا کہ بھٹو کے ساتھ نا انصافی ہوئی تھی۔ بھٹو کے عدالتی قتل نے پاکستان کی روح پر ایسے زخم لگائے ہیں جو کئی دہائیاں گزر جانے کے باوجود مندمل نہیں ہوئے اور جب بھی کسی سیاستدان کے ساتھ نا انصافی ہوتی ہے تو اس کے حامی سقراط کو یاد کرتے ہیں یا بھٹو کو یاد کرتے ہیں۔ نوازشریف کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ ایک زمانے میں وہ کہتے تھے کہ میں بھٹو کی بیٹی کا نام سننا پسند نہیں کرتا کیونکہ بھٹو نے پاکستان توڑا۔ جب انہیں عدالت نے نااہل قرار دیا تو ان کی جماعت مسلم لیگ (ن)نے نواز شریف کا بھٹو سے تقابل شروع کردیا۔ بھٹو کی اپنی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے لیڈروں کو بھٹو کے نظریات اور منشور میں زیادہ دلچسپی نہیں لیکن جب انہیں اپنے لیے خطرہ نظر آتا ہے تو یہ بھٹو کا نام لینے لگتے ہیں۔ آج کے سیاستدانوں کو بھٹو کی زندگی اور موت سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔ بھٹو کی غلطیوں میں بھی سبق ہے اور ان کے کارناموں میں بھی سبق ہے۔

ذوالفقار علی بھٹو کی سب سے بڑی غلطی یہ تھی کہ 1970ءکے انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے والی جماعت عوامی لیگ کے ساتھ وہ کوئی سمجھوتہ نہ کر سکے۔ انہیں اقتدار اکثریتی جماعت کے حوالے کرنے کا مطالبہ کرنا چاہیے تھا لیکن اکثریتی جماعت کے خلاف ملٹری آپریشن ہو گیا اور پاکستان ٹوٹ گیا۔ ٹوٹے پھوٹے پاکستان کا وزیراعظم بننے کے بعد انہوں نے بلوچستان میں نیپ کی حکومت برطرف کی، نیپ پر پابندی لگائی اور فوجی آپریشن کی منظوری دی۔ حکومت میں آنے کے بعد انہوں نے پیپلز پارٹی کو منظم کرنے پر توجہ نہ دی، پرانے ساتھیوں کو نظر انداز کیا اور مفاد پرستوں کو اپنے ارد گرد اکٹھا کر لیا۔ مشکل وقت آیا تو یہ مفاد پرست غائب ہو گئے۔ 1973ءکا متفقہ آئین بھٹو کا سب سے بڑا کارنامہ ہے جس نے آج بھی پاکستان کو قائم رکھا ہوا ہے لیکن ان کا اصل جرم ایٹمی پروگرام تھا۔ ہیوی مکینیکل کمپلیکس ٹیکسلا تھا۔ آئی ایس آئی کے ایک افسر بریگیڈیئر (ر) سید ارشاد ترمذی نے اپنی کتابPROFILES OF INTELLIGENCE میں صاف صاف لکھا ہے کہ انہوں نے خود واشنگٹن سے پاکستان میں امریکی سفارت خانے کو بھیجا جانے والا وہ خفیہ پیغام پکڑا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ بھٹو کی موت کو یقینی بنایا جائے۔ آگے چل کر بریگیڈیئر ترمذی نے دستاویزی شہادتوںکے ساتھ لکھا ہے کہ بھٹو کا اصل جرم پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو آگے بڑھانا تھا اور اسی لیے جنرل ضیاء الحق نے امریکہ کے حکم پر سپریم کورٹ کے ساتھ مل کر بھٹو کو پھانسی کے گھاٹ اتار دیا۔

ذوالفقار علی بھٹو اگر چاہتے تو ڈیل کر سکتے تھے۔ رہائی پا سکتے تھے لیکن انہوں نے بہت سوچ سمجھ کر موت کو گلے لگایا۔ وہ جیل میں لکھی گئی کتاب ’’اگر مجھے قتل کر دیا گیا‘‘ میں لکھتے ہیں، میں تاریخ کے ہاتھوں مرنے کے بجائے فوج کے ہاتھوں مرنا پسند کروں گا۔ اگر وہ ڈیل کر لیتے تو فوج کے ہاتھوں بچ جاتے اور تاریخ کے ہاتھوں مارے جاتے۔ ذوالفقار علی بھٹو کا ایک اور کارنامہ بے نظیر بھٹو تھیں۔ انہوں نے اپنی سیاسی وراثت اپنی بیٹی کے حوالے کرکے ایک ایسا فیصلہ کیا جو ان کی سیاسی بقا کی ضمانت بنا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی جرأت و بہادری نے بھی بھٹو کو زندہ رکھا اور پھر بے نظیر بھٹو بھی اسی شہر میں ماری گئیں جہاں ان کے والد کو مارا گیا تھا۔ باپ اور بیٹی نے بہادری سے موت کو گلے لگا کر اپنی غلطیوں کا کفارہ ادا کیا اور ہمیشہ کے لیے امر ہو گئے۔ یہ دونوں تو آج بھی زندہ ہیں۔ اب ذرا اس کے بارے میں سوچئے جو بھٹو کے جسد خاکی کے فوٹو بنوا رہا تھا۔ اسے بھی انہوں نے مروا دیا جن کے حکم پر اس نے بھٹو کو مارا تھا۔ اللہ معاف کرے موت کے بعد اس کا جسد خاکی کسی فوٹو کے قابل نہ تھا۔

Source: Jung News

Read Urdu column Bhutto kyun zindah hai by Hamid mir

Leave A Reply

Your email address will not be published.