غلط فہمیاں – حامد میر

hamid-mir

عمران خان کی حکومت کے وزراء آج کل سابق صدر آصف علی زرداری اور اُن کے برخوردار بلاول بھٹو زرداری کی بڑی تعریفیں کر رہے ہیں۔

آصف زرداری اور بلاول کافی عرصے سے عمران خان کو ہٹانے کے لئے جلسے جلوسوں کے ساتھ ساتھ تحریکِ عدم اعتماد لانے پر بھی زور دے رہے ہیں۔

مسلم لیگ (ن) کا خیال ہے کہ عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ وہ سرکاری وسائل کا بےدریغ استعمال کرکے تحریکِ عدم اعتماد کو ناکام بنا دیں گے۔

اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم کی دو بڑی جماعتوں کے درمیان اِس اختلاف سے وزیر داخلہ شیخ رشید احمد بڑے خوش ہیں اور بلاول کی بلائیں لے رہے ہیں لیکن دوسری طرف سندھ کے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ اور وفاقی وزیر بحری امور علی زیدی کے درمیان ہونے والا پھڈا بتا رہا ہے کہ وفاقی حکومت پیپلز پارٹی کو بھی اپنے لئے اُتنا ہی بڑا خطرہ سمجھتی ہے جتنا بڑا خطرہ مسلم لیگ (ن) کو سمجھتی ہے لیکن عمران خان کی حکومت کا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ اِس حکومت کے وزراء کی کوئی ایک پالیسی نہیں۔

جب ایک گھاگ سیاستدان شیخ رشید احمد، بلاول اور مریم نواز کو آپس میں لڑانے کے لئے شاطرانہ بیان دینا شروع کر دیتے ہیں تو علی زیدی جیسے جذباتی اور غصیلے وزیر سندھ کے وزیراعلیٰ کی ایسی تیسی کرکے شیخ صاحب کی ساری گیم چوپٹ کر دیتے ہیں۔

یہ خاکسار پہلے بھی لکھ چکا، پھر لکھ رہا ہے کہ عمران خان کی حکومت کو اپوزیشن سے کوئی خطرہ نہیں، اِس حکومت کو خود اپنے آپ سے خطرہ ہے۔

پچھلے چند ہفتوں میں ایسے حالات و واقعات پیدا ہو رہے ہیں جن کے باعث عمران خان کی حکومت کی ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر پاکستان کی ساکھ بھی متاثر ہوئی ہے۔ اِس حکومت کے وزیر ہوا بازی کی طرف سے قومی اسمبلی کے فلور پر دیے گئے ایک بیان کے بعد یورپ میں پاکستان ایئر لائنز کی پروازیں بند ہو گئیں۔

ایسا بیان مسلم لیگ (ن) یا پیپلز پارٹی کے کسی وزیر نے دیا ہوتا تو غداری کے فتوے بانٹنے والوں نے اب تک اُسے کسی نہ کسی عدالت میں گھسیٹ لیا ہوتا۔

پاکستان کی ذلت و رسوائی یہیں ختم نہیں ہوئی بلکہ اُس کے بعد ملائیشیا میں پی آئی اے کے طیارے سے مسافروں کو اُتار کر طیارہ ضبط کر لیا گیا کیونکہ پی آئی اے نے لیزنگ کی رقم ادا نہیں کی تھی۔

براڈ شیٹ کا معاملہ دیکھ لیں۔ حکومت نے خود گزشتہ سال نومبر میں براڈ شیٹ کو رقم ادا کرنے کی منظوری دی اور جب برطانوی اتھارٹیز نے لندن میں ایک پاکستانی بینک کے اکائونٹ میں موجود رقم ضبط کر لی تو حکومت نے معاملے کی انکوائری کا حکم دے دیا۔ بعد ازاں انکوائری کی سربراہی جسٹس (ر) عظمت سعید کے سپرد کر دی جو شوکت خانم اسپتال کے بورڈ آف گورنرز میں شامل ہیں۔

عمران خان نے اپنے ہر مسئلے کا علاج نیب میں ڈھونڈ رکھا ہے اور جب نیب کہیں کام نہیں آتی تو پھر کسی نہ کسی عظمت سعید کو ڈھونڈ لیا جاتا ہے۔ عظمت سعید کب تک عمران خان کے کام آئیں گے؟

کیا اُنہوں نے کبھی سوچا ہے کہ 2019ءمیں امریکی حکومت کی درخواست پر برطانیہ میں گرفتار ہونے والے ابراج گروپ کے سربراہ عارف نقوی سے ہونے والی تحقیقات کی تفصیل سامنے آئی تو وہ کیا کریں گے؟ جب تک ڈونلڈ ٹرمپ امریکا کے صدر تھے تو اُن کے داماد کے پاکستانی دوست عارف نقوی پر پریشر کو کم کرانے کے لئے سرگرم رہتے تھے لیکن اب بائیڈن امریکا کے صدر ہیں۔

عارف نقوی کے خلاف امریکا میں جاری تحقیقات میں تیزی آئے گی کیونکہ عارف نقوی کے خلاف پہلا مدعی بل گیٹس کی گیٹس فائونڈیشن ہے۔ عارف نقوی کو ہیتھرو ایئر پورٹ لندن میں گرفتار کیا گیا تو اُنہوں نے برطانوی حکام کو وزیراعظم عمران خان کا فون نمبر دیا اور بتایا کہ وہ اُن کے بیس سال سے دوست ہیں۔

تحریک انصاف کے خلاف فارن فنڈنگ کیس کے مدعی اکبر ایس بابر کا کہنا ہے کہ عارف نقوی نے 2013ءکے الیکشن میں عمران خان کو بھاری رقوم بھجوائیں جن کا ریکارڈ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو فراہم نہیں کیا گیا اور یہ ریکارڈ اُن اکائونٹس میں موجود ہے جن کی تفصیل الیکشن کمیشن کی اسکروٹنی کمیٹی کے پاس آ چکی ہے لیکن وہ کوئی فیصلہ نہیں کر پا رہی۔

عمران خان نے پچھلے دنوں کہا کہ فارن فنڈنگ کیس کی سماعت ٹی وی کیمروں کے سامنے کرائی جائے لیکن پھر خاموشی چھا گئی اور الیکشن کمیشن نے کہا کہ یہ اسکروٹنی ٹی وی کیمروں کے سامنے نہیں ہو سکتی۔

عمران خان یہ بھی جانتے ہیں کہ امریکا میں قائم کی جانے والی عمران خان ڈویلپمنٹل اکیڈیمک ریسرچ (اکدار) کے اکائونٹس اور دفاتر کی بھی تحقیقات شروع ہو چکی ہیں۔ اِس ادارے کا اعلان عمران خان نے خود کیا تھا۔

اِس کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں اُنہوں نے جمائما خان اور اپنے دونوں بیٹوں کو شامل کیا۔ اکدار کا امریکا میں دفتر ابھی تک عمران خان کے نام پر ہے لیکن گیارہ ستمبر 2019کو بورڈ آف ڈائریکٹر کے ایک رکن دبیر ترمذی کو تحریک انصاف سے نکال دیا گیا۔

اُن پر الزام تھا کہ وہ وزیراعظم پاکستان کے نام کا ناجائز استعمال کر رہے ہیں۔ اِس ادارے کی تقریبات میں وفاقی وزراء اور واشنگٹن میں پاکستانی سفارتخانے کا عملہ شریک ہوتا رہا۔ اچانک اِس ادارے کی سرگرمیاں کم کر دی گئی ہیں۔ کیا کوئی عظمت سعید بتائے گا کہ یہ اکدار کا کیا معاملہ ہے؟

حال ہی میں عمران خان کے وزیر توانائی عمر ایوب خان نے بجلی مہنگی کرنے کا اعلان کیا اور ساتھ میں یہ دعویٰ بھی کر دیا کہ بجلی مہنگی کرنے کی وجہ سابقہ حکومت کی پالیسیاں ہیں۔

عمر ایوب نے یہ بیان اپنی حکومت کے اڑھائی سال مکمل ہونے پر دیا۔ حکومت کی آدھی مدت گزر چکی اور عمر ایوب ابھی تک مہنگائی کی ذمہ داری پچھلی حکومتوں پر ڈال رہے ہیں۔

ہمیں پچھلی حکومتوں کا دفاع نہیں کرنا کیونکہ براڈ شیٹ اور ابراج گروپ کے ساتھ ہمارے پچھلوں کا بھی بڑا تعلق رہا ہے لیکن عمر ایوب خان کا تو ان پچھلوں سے بڑا گہرا تعلق رہا ہے۔ وہ مسلم لیگ (ن) میں بھی شامل تھے اور مسلم لیگ (ق) میں بھی شامل تھے۔

وزیر خزانہ حفیظ شیخ کے بارے میں کون نہیں جانتا کہ وہ آصف علی زرداری اور یوسف رضا گیلانی کی حکومت میں وزیر خزانہ تھے۔ شاہ محمود قریشی مسلم لیگ (ن) اور بعد میں پیپلز پارٹی میں رہے۔

پرویز خٹک نے تو سیاست ہی پیپلز پارٹی سے شروع کی۔ غلام سرور خان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ق) سے ہو کر تحریک انصاف میں آئے۔ فہمیدہ مرزا بھی پیپلز پارٹی کی دریافت ہیں۔

خسرو بختیار اور صاحبزادہ محبوب سلطان مسلم لیگ (ق) اور مسلم لیگ ن کو بھگتا کر آئے۔

آج کل عمران خان کو پرویز مشرف بڑے بُرے لگنے لگے ہیں کیونکہ انہوں نے ماضی کے حکمرانوں کو این آر او دیئے لیکن شیخ رشید احمد، فروغ نسیم، محمد میاں سومرو، زبیدہ جلال، فواد حسین اور اعجاز شاہ کون ہیں؟ کیا یہ سب مشرف کے ساتھی نہیں؟

کیا اعظم سواتی چند سال پہلے تک مولانا فضل الرحمٰن کے گیت نہیں گاتے تھے؟ عمران خان مانیں یا نہ مانیں، اُن کے اردگرد اکثریت مشرف، زرداری اور نواز شریف کے ساتھیوں کی ہے۔ عمران خان کی حکومت اور پچھلی حکومتوں میں زیادہ فرق نظر نہیں آتا۔ اصل حکومت وہ نہیں ہوتی جو اسلام آباد میں اقتدار کے ایوانوں میں قائم ہوتی ہے، اصل حکومت وہ ہوتی ہے جسے عوام دل سے قبول کرتے ہیں۔

عوام کے دلوں پر حکومت تو کب کی ختم ہو گئی۔ یقین نہ آئے تو عمران خان میرے ساتھ کسی دن راولپنڈی کے راجہ بازار، لاہور کی انار کلی یا کراچی کے طارق روڈ پر چلیں۔ سب غلط فہیاں دور ہو جائیں گی۔

Source: Jung News

Read Urdu column Galat Fehmian by Hamid Mir

Leave A Reply

Your email address will not be published.