جانو پھرسے اسپتال میں! -ارشاد بھٹی

irshad bhatti

مشتاق احمد یوسفی کہیں، ہر کوئی شیطان سے پناہ مانگے اور کئی کو تو شیطان پناہ دے بھی دے، بالکل ایسا ہی میرا دوست (ف)، پہلی نظر میں لگے شیطان کی پناہ میں، چند منٹ پاس بیٹھ جاؤ، لگے شیطان اس کی پناہ میں، سوشل میڈیا کا کیڑا، اُتنے سندھ سرکارکے 25والیومز میں جعلی اکاؤنٹس نہیں جتنے اس نے صرف ٹویٹر پر بنار کھے،.

باتونی ایسا، خاموش دیکھنے کی خواہش حسرت بن گئی، اور تو اور سوتے ہوئے بھی بڑ بڑاتا رہے، ہر بات کا جواب، ہرمسئلے کا حل اس کے پاس، یہ اسی کی تحقیق کہ بیوی کے سامنے صرف وہی خاوند سراُٹھا کر بات کر سکتے ہیں جن کا قد اپنی بیوی سے چھوٹا ہوتاہے، دوشادیوں، ایک نکاح، 3 منگنیوں کی ناکامی کے بعد ان دنوں پھرسے امید سے، یہ شکلاً یوتھیا، عادتاً پٹواری، اسے بھگتتے ہوئے اکثر وہ خاتون یاد آجائے،

جس سے جج نے جب پوچھا’’آپ عینی شاہد ‘‘ بولی ’’ جی ہاں‘‘ جج نے کہا’’ جو کچھ دیکھا، بیان کرو‘‘ بولی ’’ میں نے تو کچھ نہیں دیکھا‘‘ جج نے کہا’’پھرتم عینی شاہد کیسے‘‘ بولی ’’ ایسے کہ میرا نام عینی اور میرے شوہر کا نام شاہد، میں عینی شاہد‘‘، ایک دن اس سے کہہ بیٹھا، یار ملکی حالات بہت خراب، بولا’’ واصف علی واصف سے ان کا دوست ملنے آیا، انہوں نے اپنے دوست کیلئے چائے منگوائی، چائے پیتے ہوئے دوست روندو سی شکل بناکر بولا ’’ میں بہت پریشان، ملکی حالات بہت خراب ‘‘واصف صاحب نے کہا ’’ملکی حالات تم نے خراب کئے ‘‘دوست بولا’’ نہیں‘‘ واصف صاحب نے کہا’’ تم حالات ٹھیک کر سکتے ہو‘‘ بولا’’ نہیں ‘‘ واصف صاحب نے کہا ’’تے فیر چا پی‘‘ ۔

ایک روز اس سے پوچھا، یار یہ ہمیں ہی جیرے بلیڈ نما سیاستدان کیوں ملتے ہیں، بولا’’ ایک سیٹھ نے دو آدمیوں کو سڑک کنارے گھاس کھاتے دیکھا تو گاڑی رکوا کر پوچھا’’ گھا س کیوں کھار ہے‘‘ دونوں بولے ’’ہم غریب، کئی دنوں سے بھوکے، گھا س کھانے پر مجبور‘‘سیٹھ نے انہیں ساتھ گھر چلنے کی پیشکش کی، دونوں بہت خوش ہوئے، فوراً گاڑی میں آکر بیٹھ گئے، رستے میں دونوں نے سیٹھ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا، آپ کی مہربانی، ہمیں ساتھ لے لیا ورنہ ہم تو گھاس کھا کھا مرجاتے، سیٹھ بولا’’کوئی بات نہیں، تمہیں میرا گھر بہت پسند آئے گاکیونکہ وہاں ایک ایک فٹ لمبی گھاس ہے ‘‘، بات کرتے کرتے لمحہ بھر رک کر (ف) دوبارہ بولا ’’ جو قوم گھا س کھانے والی، اسے جو بھی ملے گا، گھاس ہی کھلائے گا‘‘۔

ایک شام (ف) موڈ میں تھا، کہنے لگا’’جس طرح انگریزی فقروں میں کچھ الفاظ سائلنٹ (خاموش )، اسی طرح اردو فقروں میں بھی کچھ الفاظ سائلنٹ ‘‘میں نے کہا ’’کیسے‘‘بولا’’ ایسے جب دکاندار کہتا ہے کہ آپ کو زیادہ نہیںلگاؤں گا ۔تو اس فقرے میں ’چونا‘ سائلنٹ، رخصتی کے وقت جب دولہے سے کہا جائے خیال رکھنا۔تواس فقرے میں ’اپنا‘ سائلنٹ، جب کہا جائے، ہماری لڑکی تو گائے ہے گائے۔ تواس فقرے میں ’سینگو ں والی‘ سائلنٹ، میں نے کہا، استاد اتنی باتیں کہاں سے سیکھیں، بولا’’ میں کہاں کا‘‘میں نے کہا ’’فیصل آبادکے ‘‘ بولا ’’پھر پوچھ رہے، اتنی باتیں کہاں سے سیکھیں، میرا فیصل آباد تو ایسا کہ ایک بار اسپتال میں ایک بندے سے پوچھا’’ دندوں (دانتوں ) والا ڈاکٹر کدھر بیٹھتا ہے ‘‘جواب ملا’’ سو ہنیو ایس اسپتال وچ سارے ڈاکٹر ہی دنداں والے، کوئی ایسا نئیں جیہڑا دنداں توں بغیر، اسی اسپتال کا ایک ڈاکٹر تو ایسا جوکیلا،ایک دن انجکشن لگوا کر جب ہزار کا نوٹ دیا،تو بولا’’ یار کھلے پیسے نہیں، اگر کہو تو بقایا پیسوں کا ایک انجکشن اور لگا دوں ‘‘۔

پچھلی جمعرات کو جب (ف) نے خوشی خوشی بتایا کہ بس چند دنوں میں پھر سے شادی ہونے والی،تو کہا’’اب تو آپ کی بھنویں بھی سفید ہورہیں، اب تو اللہ کی رضا سمجھ کر شادی کا خیال دل سے نکال دو،اس عمر میں شادی کرنا مطلب چوک میں نلکا لگوانا، کسی اور کے پڑھنے کیلئے کتاب خریدنا، غصے سے بولا’ ’ بندے کی نظر اور نیت خراب ہوتو اسی طرح کی گفتگو کرتا ہے، یاد رکھو بوڑھا ہونا الگ چیز، بوڑھا دکھائی دینا الگ، بڑھاپا ایک کیفیت کا نام، اس کا سفید بالوں سے کیا تعلق، اور ہاں، یاد آیا شعور اورشو ر میں ایک ’ع‘ کا فرق اوریہ ’ع‘ علم کہلائے، براہ مہربانی جس شے کا علم نہ ہواس پر شور نہیں مچاتے‘‘ ۔

اس’ عزت افزائی ‘کے بعد بھی میں جان بوجھ کر چپ رہا ورنہ آج شادی کے خلاف ایک لفظ نہ سننے والے اپنے دوست (ف) کو یاد کراتا کہ قبلہ یہ آپ ہی تھے جنہوں نے دوسری شادی کی ناکامی کی خبر سنا کر پہلے گھنٹہ بھر شادی کی بدتعریفیاں کیں، پھر اپنی دونوں سابقہ بیویوں کے ظلم وستم کے قصے سنا کر کہا،بیویوں سے بچو،

ورنہ اس خاوند جیسے ہو جاؤ گے جس سے اس کی بیوی نے لاڈ بھرے انداز میں کہا’’ جانو میں اپنے بال کٹوا لوں‘‘خاوند، کٹوا لے،بیوی، لیکن سوچوں، اتنی مشکل سے تو بال لمبے کئے، خاوند، تو پھر نہ کٹوا، بیوی، مگر آجکل چھوٹے بال فیشن ہیں، خاوند، توپھر کٹوا لے،بیوی، مگر لمبے بال تو آپ کو پسند، خاوند، تو پھر نہ کٹوا، بیوی، سہیلیاں کہیں میرے چہرے کے ساتھ چھوٹے بال اچھے لگتے ہیں، خاوند، تو پھر کٹوالے، بیوی، لیکن بال خراب نہ ہوجائیں، خاوند، تو پھر نہ کٹوا، بیوی، ویسے چھوٹے بال سنبھالنا آسان ہوتا ہے، خاوند تو پھر کٹوالے، بیوی،ڈر لگتاہے، کہیں بری ہی نہ لگوں، خاوند، تو پھر نہ کٹوا، بیوی، رسک لے ہی لیتی ہوں، خاوند، تو پھر کٹوالے، بیوی، توپھر چلیں، خاوند، تو پھر نہ کٹوا، بیوی، میں کہہ رہی ہوں چلیں بال کٹوانے، خاوند، تو پھر کٹوالے، بیوی، یہی تو کہہ رہی ہوں چلیں، خاوند، توپھر نہ کٹوا،

بیوی، گھبرا کر، آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے، خاوند، توپھر کٹوالے، بیوی، خوفزدہ ہو کر، کیا ہوگیا ہے آپ کو، خاوند، تو پھر نہ کٹوا، اسی شام یہ خاوند اسپتال کے ذہنی امراض کے وارڈ میں تھا لیکن خاوند کے دکھ یہیں ختم نہیں ہوئے، 3دن اسپتال میں گزار کر جب خاوند گھر آیا تو رسمی علیک سلیک کے بعد بیوی بولی، جا نو، سب گھروالوں نے کہامگر میں نے بال نہیں کٹوائے، سب سے یہی کہا میں تواپنے جانو کے ساتھ ہی جا کر کٹواؤں گی، لیکن جانو کیا خیال ہے مجھے بال کٹو انے چاہئیں، بقول (ف) جانو مطلب خاوند پھر سے اسپتال میں ۔

Source: Jung News

Read Urdu column Janu phir say haspatal mein By Irshad Bhatti

Leave A Reply

Your email address will not be published.