کراچی والوں کا مذاق نہ اڑائیں – حامد میر

Hamid Mir

کراچی والوں پر پیار بھی آتا ہے اور ترس بھی آتا ہے۔ اس شہر کے لوگوں کو پھر سے سہانے سپنے دکھائے جا رہے ہیں۔ 2018ءکے انتخابات میں ملک کی تین بڑی جماعتوں کےقائدین کراچی سے امیدوار بن چکے ہیں اور کراچی کی تباہی کی ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈال رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ان جماعتوں کے سائبر کمانڈوز سے گزارش ہے کہ اپنی سیاسی لڑائی میں کچھ اہم تاریخی حقائق کو نظرانداز نہ کریں اور ایک سابق آئی جی حافظ صباح الدین جامی کی کتاب ’’پولیس، کرائم اینڈ پالیٹکس‘‘ کا مطالعہ کرنے کی زحمت گوارا کر لیں۔ جامی صاحب کا حوالہ اس لئے دیا کہ وہ اچھی شہرت کے حامل پولیس افسر تھے۔ اُن کا تعلق پنجاب سے تھا لیکن انہوں نے اپنی کتاب میں وہ سچ لکھا جس کا ذکر پنجاب کی سیاسی اشرافیہ کی طبیعت پر گراں گزرتا ہے۔ جامی صاحب کی کتاب میں آپ کو کراچی والوں کا وہ جرم پڑھنے کو ملے گا جس کے بعد کراچی والوں پر پیار بھی آتا ہے اور ترس بھی آتا ہے۔ اس شہر کے لوگوں پر 2جنوری 1965ء کی شام مسلح لوگوں نے گولیاں برسائیں، ان کے گھر لوٹ لئے اور ان کی دکانیں جلا دیں۔ یہ وہ دن تھا جب پاکستان کے پہلے فوجی ڈکٹیٹر جنرل ایوب خان نے ریاستی طاقت کی مدد سے صدارتی انتخاب میں محترمہ فاطمہ جناح کو شکست دی۔ اس صدارتی انتخاب میں عوام کو براہِ راست ووٹ ڈالنے کا حق نہیں تھا لیکن مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان کے 80ہزار کونسلروں کو ووٹر بنایا گیا تاکہ دھاندلی کرنے میں آسانی رہے۔ حافظ صباح الدین جامی ان دنوں اسپیشل برانچ سندھ کے ایس پی کی حیثیت سے کراچی میں

تعینات تھے۔ اپنی کتاب کے دسویں باب میں انہوں نے لکھا ہے کہ کراچی سمیت پورے پاکستان کی سرکاری مشینری جنرل ایوب خان کو جتوانے کے لئے سرگرم تھی۔ ایک دن جامی صاحب لیاقت آباد پولیس اسٹیشن آئے تو وہاں پر ایک صوبائی وزیر عبدالغفار پاشا ایس ایچ او کی موجودگی میں کچھ سیاسی کارکنوں کو جیب سے نوٹوں کے بنڈل نکال نکال کر دکھا رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ ہم ہر صورت میں صدر ایوب کو جتوائیں گے۔ جامی صاحب نے واضح الفاظ میں لکھا کہ اس صدارتی انتخاب میں کھلم کھلا دھاندلی ہوئی اور ایوب خان جیت گئے لیکن ڈھاکہ اور کراچی میں ایوب خان کو شکست ہوئی۔ ایوب خان کے صاحبزادے گوہر ایوب خان نے اپنے حامیوں کا ایک جلوس نکالا اور فتح کا جشن منانے کے لئے لالو کھیت کی طرف روانہ ہو گئے جہاں کے لوگوں نے محترمہ فاطمہ جناح کا دیوانہ وار ساتھ دیا تھا۔ کراچی کی انتظامیہ کو فوری طور پر یہ خدشہ لاحق ہو گیا کہ اس جلوس کی وجہ سے شہر میں گڑبڑ ہو سکتی ہے۔ کمشنر کراچی روئیداد خان نے ایک اجلاس طلب کر لیا جس میں ڈی آئی جی آصف مجید، ایس پی سیکورٹی عبید الرحمان خان اور ایس پی اسپیشل برانچ کے علاوہ کچھ دیگر افسران شریک تھے اور فیصلہ کیا گیا کہ گوہر ایوب خان کو اس جلوس سے روکا جائے۔ گوہر ایوب خان ہوا کے گھوڑے پر سوار تھے اُن سے رابطہ نہ ہو سکا اور آخرکار وہی ہوا جس کا خدشہ تھا۔ حافظ صباح الدین جامی نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ جیتنے والوں نے مہاجر کمیونٹی کو محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت کی سزا دی اور یوں شہر میں لسانی فسادات پھوٹ پڑے جن میں بہت سے لوگ مارے گئے۔ ایک مقتول کے ورثا نے گوہر ایوب خان پر قتل کا مقدمہ درج کرا دیا۔ گوہر ایوب خان کو بے گناہ ثابت کرنے کے لئے صوبائی وزیر قانون غلام نبی میمن نے ملزم کے خلاف تمام شہادتیں ضائع کروا دیں۔

جب گوہر ایوب خان کی سرکردگی میں یہ دنگا فساد ہوا تو ذوالفقار علی بھٹو فوجی ڈکٹیٹر کی کابینہ میں وزیر تھے۔ کچھ عرصہ بعد وہ اس ڈکٹیٹر کی کابینہ سے مستعفی ہوئے۔ انہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی بنائی اور ڈکٹیٹر کے خلاف تحریک چلائی۔ 1979ءمیں بھٹو صاحب ایک اور ڈکٹیٹر کے ہاتھوں تختہ دار پر لٹک گئے اور انہوں نے اپنے ماضی کے گناہوں کا کفارہ ادا کر دیا۔ بھٹو صاحب کی پھانسی کے بعد اُن کی بیٹی بے نظیر بھٹو نے اپنی جوانی جیلوں اور جلاوطنی میں گزاری۔

10اپریل 1986ء کو وہ اپنی جلاوطنی ختم کر کے واپس لاہور آئیں تو حافظ صباح الدین جامی آئی جی پنجاب اور نواز شریف وزیر اعلیٰ پنجاب تھے۔ اس کتاب میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کس طرح نواز شریف خاموشی سے چوہدری نثار علی خاں کے سیاسی مخالفین کو آئی جی کے پاس بھیج کر چوہدری صاحب کی انکوائریاں کرایا کرتے تھے اور خواجہ سعد رفیق کو گرفتار کرنے کا حکم کیوں دیا گیا اور پھر کس طرح سردار عبدالقیوم خان اور چوہدری پرویز الٰہی کی طرف سے خواجہ صاحب کو گرفتاری سے بچانے کی کوشش کی جاتی تھی لیکن کتاب کے چودھویں باب میں کچھ مزید اہم واقعات درج ہیں۔
جامی صاحب نے لکھا ہے کہ بے نظیر بھٹو لاہور میں ایک رومن شہنشاہ کے انداز میں جلوہ افروز ہوئیں اور ان کے جلوس میں سات سے آٹھ لاکھ افراد شامل تھے۔

10اپریل 1986ء کے دن بے نظیر بھٹو لاہور میں جو چاہے کر سکتی تھیں لیکن پیپلز پارٹی نے قانون ہاتھ میں نہیں لیا البتہ کچھ ناراض کارکنوں نے امریکہ کے پرچم ضرور نذر آتش کئے۔ یہ پنجاب کے ایک سابق آئی جی کی گواہی ہے۔ اب آئی جی صاحب کی کتاب بند کر دیجئے اور سوچئے کہ بے نظیر بھٹو صاحبہ کو ان کی قانون پسندی کا کیا صلہ دیا گیا؟ 1988ء کے عام انتخابات سے قبل بے نظیر بھٹو صاحبہ کا راستہ روکنے کے لئے اسلامی جمہوری اتحاد بنوایا گیا۔ ’’جاگ پنجابی جاگ‘‘ کا نعرہ لگا کر پیپلزپارٹی کو سندھ کی طرف دھکیلنے کی کوشش کی گئی اس کے باوجود بے نظیر بھٹو وزیر اعظم بن گئیں۔ صرف 20ماہ کے بعد انہیں حکومت سے نکال کر اُن کے مخالفین میں رقوم بانٹی گئیں۔ ان مخالفین میں الطاف حسین اور جی ایم سید بھی شامل تھے۔ پیپلز پارٹی کے سیاسی مخالفین میں خفیہ اداروں کے ذریعہ رقوم کی تقسیم کا یہ اسکینڈل اصغر خان کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے ذریعے تاریخ میں محفوظ ہو چکا ہے۔ آج جو لوگ پیپلز پارٹی کو طعنہ دیتے ہیں کہ اُسے پنجاب میں انتخابی امیدوار نہیں مل رہے وہ اصغر خان کیس کا فیصلہ پڑھ لیں پتہ چل جائے گا کہ پیپلز پارٹی کو پنجاب سے نہیں پاکستان سے نکالنے کے لئے کیا کیا جتن کئے گئے؟

آج پنجاب کے کچھ دانشور اپنے من پسند پنجابی سیاستدانوں کو کبھی ذوالفقار علی بھٹو، کبھی بے نظیر بھٹو اور کبھی بیگم نصرت بھٹو کے ساتھ تشبیہ دے کر تاریخ کو اپنی پسند کے رنگ میں ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن کیا پھانسی پر لٹکنے والے اور عدالت سے نااہلی کی سزا پانے والے میں کوئی مماثلت تلاش کی جا سکتی ہے؟ افسوس صد افسوس کہ اصغر خان کیس کے فیصلے میں خفیہ اداروں سے رقوم وصول کرنے والوں کے ناموں نے تینوں بڑی جماعتوں کی ساکھ پر سوالات اٹھا دیئے ہیں۔ کچھ صاحبان نواز شریف کے ساتھ کھڑے ہیں، کچھ عمران خان اور کچھ آصف زرداری کے ساتھی بن چکے ہیں۔
اصغر خان کیس کا فیصلہ پاکستانی ریاست کے لئے بدنامی کا ایک داغ ہے لیکن افسوس کہ تاریخ سے سبق نہیں سیکھا جا رہا۔ غلطیاں دہرانے کا سلسلہ جاری ہے لیکن

خوش آئند بات یہ ہے کہ شہباز شریف، عمران خان اور بلاول بھٹو زرداری کراچی سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ ’’منی پاکستان‘‘ کے مسائل میڈیا میں اجاگر ہو رہے ہیں لیکن خدارا سیاسی لڑائی میں تاریخی حقائق کو مسخ نہ کریں۔ کراچی والوں کے زخموں پر مرہم رکھیے۔ ان کا مذاق مت اڑائیں۔ کیا کوئی شیردل سیاستدان یہ اعتراف کرنے کی جرأت کرے گا کہ کراچی والوں کی تباہی صرف اس لئے شروع ہوئی کہ انہوں نے ایک محب وطن ڈکٹیٹر کے بجائے بانی پاکستان کی بہن کا ساتھ دیا تھا جسے غدار کہا گیا؟ جن صاحب پر حافظ صباح الدین جامی نے 2جنوری 1965ء کو کراچی میں گڑبڑ پھیلانے کا الزام لگایا وہ بعد میں نواز شریف کے ساتھی بن گئے، اُن کے برخوردار عمران خان کے ساتھی بن چکے ہیں اور کراچی والے حیران و پریشان ہیں۔ کراچی والوں کے صبر کو سلام۔

Source: Jung News

Read Urdu column Karachi walon ka mazaq na uraen

Leave A Reply

Your email address will not be published.