نامعلوم دھند اور لاپتہ ضمیر – حامد میر

hamid-mir

آپ نے لاپتہ افراد کے بارے میں تو سنا ہو گا لیکن کسی شاعر کے لاپتہ دیوان کے بارے میں نہیں سنا ہوگا۔ ذرا سوچیے کہ کسی شاعر کا کھویا ہوا دیوان اسے کئی سال کے بعد واپس مل جائے تو اس کی خوشی کا کیا عالم ہوگا؟

میں پچھلے دو دن سے اردو کے ایک عظیم شاعر کا ایسا دیوان پڑھ رہا ہوں جو دو سو سال کے بعد سامنے آیا ہے لیکن افسوس کہ یہ شاعر دنیا میں نہیں رہا۔ یہ کوئی عام شاعر نہیں ہے بلکہ وہ شاعر ہے جس کے بارے میں مرزا غالبؔ نے کہا تھا ؎

ریختے کے تمہیں استاد نہیں ہو غالب

کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میرؔ بھی تھا

تو جناب یہ دیوان میر تقی میرؔ کا ہے جسے اردو زبان کے ایک معروف اسکالر ڈاکٹر معین الدین عقیل سامنے لائے ہیں۔ سنگِ میل پبلی کیشنز نے اسے ’’میر تقی میرؔ کا غیرمطبوعہ دیوانِ ہفتم، دریافت و انکشاف‘‘ کے نام سے شائع کیا ہے۔ میر تقی میرؔ کے کلیات میں چھ دیوان شامل رہے ہیں لیکن اس ساتویں دیوان کا سراغ ملائیشیا کی انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کوالالمپور کے انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک سولائزیشن کی لائبریری سے ملا۔

اس لائبریری میں کینیڈا سے تعلق رکھنے والے اردو اسکالر عبدالرحمٰن بارکر کا ذخیرۂ کتب موجود ہے اور ان کتابوں میں سے ڈاکٹر معین الدین عقیل نے میر تقی میرؔ کے غیرمطبوعہ دیوانِ ہفتم کا سراغ نکالا۔

یہ دیوان دراصل میر تقی میرؔ کے کلام کا انتخاب ہے۔ کچھ غزلیں پچھلے چھ دیوانوں میں موجود ہیں لیکن اس ساتویں دیوان میں ایسی غزلیں اور اشعار شامل ہیں جو غیرمطبوعہ اور کتابت شدہ ہیں۔ ایک غزل کا یہ شعر اہم ہے؎

جو جو ظلم کئے ہیں تم نے سو سو ہم نے اٹھائے ہیں

داغ جگر پہ جلائے ہیں چھاتی پہ جراحت کھائے ہیں

میر صاحب 1723میں آگرہ میں پیدا ہوئے اور 1810میں ان کا لکھنؤ میں انتقال ہوا۔ زیادہ وقت دہلی میں گزرا۔ انہوں نے بہت افراتفری اور ابتلا دیکھی اور اس دیوان میں بھی ایسی غزلیں شامل ہیں جن کے اشعار پڑھ کر یہ محسوس ہوتا ہے کہ دو سو سال بعد بھی حالات نہیں بدلے، فرماتے ہیں؎

ہم سے تو تم کو ضد سی پڑی ہے خواہ نہ خواہ رلاتے ہو

آنکھ اٹھا کر جب دیکھے ہیں اوروں میں ہنستے جاتے ہو

میر تقی میرؔ کے دیوانِ ہفتم کی دریافت اردو ادب میں ایک اہم اضافہ ہے اور میرے لئے اس دیوان کا پتہ ملنا اس لئے بہت اہم تھا کہ میرے اپنے دادا مرحوم میر عبدالعزیز کا بھی دیوان گم ہو گیا تھا۔

وہ اردو، فارسی اور پنجابی کے شاعر تھے۔ ایک دفعہ سیالکوٹ سے مشاعرہ پڑھنے لاہور آئے۔ مشاعرہ رات گئے تک چلا تو وہیں آنکھ لگ گئی۔ آنکھ کھلی تو دیوان غائب تھا۔ والد صاحب نے اس دیوان کو تلاش کرنے کیلئے اخبارات میں بہت خبریں چھپوائیں لیکن یہ دیوان نہ ملا۔

دو دن قبل جب اس خاکسار نے میر تقی میرؔ کے غیرمطبوعہ دیوانِ ہفتم کا مطالعہ شروع کیا تو میڈیا پر ڈسکہ کے حلقہ این اے 75میں ہونے والے ضمنی الیکشن کے بعد لاپتہ ہونے والے پریذائڈنگ افسران کا ذکر چل رہا تھا۔

میں ایک دلچسپ صورتحال سے گزر رہا تھا۔ میرے ہاتھ میں میر تقی میرؔ کا دیوانِ ہفتم تھا جو دو سو سال تک لاپتہ رہا اور میرے سامنے ٹی وی اسکرین پر این اے 75میں دو درجن پریذائڈنگ افسران کی گمشدگی کا شور تھا۔

ہفتے کی صبح چھ بجے یہ لاپتہ پریذائڈنگ افسران اپنے ریٹرننگ افسر کے پاس واپس پہنچے اور بتایا کہ وہ دھند کی وجہ سے لیٹ ہو گئے تھے۔ کسی کی طبیعت خراب تھی اور کسی نے اپنی عینک گم ہو جانے کا بہانہ کیا لیکن دھند والے دلچسپ بہانے سے کئی افسانے بن گئے۔ ساحر لدھیانوی نے کہا تھا ؎

سنسار کی ہر شے کا اتنا ہی فسانہ ہے

اک دھند سے آنا ہے اک دھند میں جانا ہے

ڈسکہ کی دھند سے برآمد ہونیوالے لاپتہ پریذائڈنگ افسران نے جو کہانیاں سنائیں وہ ایک ایسی دھند کا پتہ دیتی ہیں جو کم ہونے کی بجائے بڑھتی جا رہی ہے اور جس کے بارے میں امجد اسلام امجد نے کہا تھا؎

مانا نظر کے سامنے ہے بےشمار دھند

ہے دیکھنا کہ دھند کے اس پار کون ہے

دھند کا بہانہ بنا کر کئی گھنٹے تک لاپتہ رہنے والے پریذائڈنگ افسران سے پوچھا گیا کہ ریٹرننگ افسر کی طرف سے آپ کو بار بار فون کئے گئے، کیا فون بھی دھند کی وجہ سے بند تھا؟ بیچارے کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ ہمارے انتخابی عمل نے پہلے محکمہ زراعت کو بدنام کیا اب محکمہ موسمیات کو بدنام کر دیا ہے۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے این اے 75میں نامعلوم دھند کے باعث کئی گھنٹے تک لاپتہ رہنے والے پریذائڈنگ افسران کی بازیابی کیلئے پنجاب کے چیف سیکرٹری اور اعلیٰ پولیس افسران سے بھی رابطہ کیا لیکن کسی نے الیکشن کمیشن سے تعاون نہیں کیا۔

اس معاملے پر الیکشن کمیشن کی طرف سے 20فروری کو جاری کیا جانے والا بیان صرف پنجاب حکومت نہیں بلکہ وفاقی حکومت کے خلاف بھی ایک چارج شیٹ ہے۔ الیکشن کمیشن کے بیان پر غور کریں تو محسوس ہوتا ہے کہ جب گریڈ 22کے کسی بڑے افسر کا ضمیر لاپتہ ہو جائے تو گریڈ 21اور گریڈ 20کے پولیس افسران سے لے کر گریڈ 19اور گریڈ 18کے بہت سے سرکاری افسران نامعلوم دھند میں پھنس جاتے ہیں۔

یہ لوگ اپنی نوکریاں بچاتے بچاتے آئین و قانون کو تباہ کر دیتے ہیں۔ جب آئین و قانون بھی لاپتہ ہو جائے تو پھر عام شہریوں کی نظر میں کسی ادارے کا احترام باقی نہیں رہتا اور جب اداروں کا احترام باقی نہیں رہتا تو پھر قومی غیرت بھی لاپتہ ہو جاتی ہے۔

شکر ہے کہ نامعلوم دھند میں لاپتہ ہونے والے ضمیروں کی تعداد زیادہ نہیں اور پاکستانی قوم متحد ہو کر ان ضمیر فروشوں سے ضرور نجات حاصل کرے گی۔

Source: Jung News

Must Read Urdu Column NaMaloon dhund aur Lapta Zameer by Hamid Mir

Leave A Reply

Your email address will not be published.