’’ماضی میں ایک چیف جسٹس کو فارغ کرنے کے لیے دوسرے جج کو نوٹوں کے بریف کیس دے کر بھیجا گیا‘‘ وزیراعظم عمران خان کا بیان لیکن دراصل وہ شخصیت کون تھی؟تفصیلات سامنے آگئیں

لاہور(ویب ڈیسک) ماضی میں پاکستان میں پیسے بانٹ کر سیاستدانوں سے کام نکلوانے ، عدالتوں سے فیصلے لینے اور یہاں تک کہ حکومتوں کے خلاف لوگوں کو استعمال کرنے کی بھی کہانیاں سننے کو ملتی ہیں، یہ الگ بحث کہ ان میں کتنی سچائی ہے یا نہیں، گزشتہ دنوں وزیراعظم عمران خان نے بھی ایک چیف جسٹس کو ہٹانے کے لیے پیسوں کا ذکر کیا تھا جس کا پس منظر اب سینئر صحافی سامنے لے آئے ہیں۔

روزنامہ نوائے نوقت میں تنویر ظہور نے لکھا کہ "ہزارہ موٹروے کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ ’’ماضی میں ایک چیف جسٹس کو فارغ کرنے کے لیے دوسرے جج کو نوٹوں کے بریف کیس دے کر بھیجا گیا‘‘ وزیر اعظم نے فارغ کرنے والے چیف جسٹس کا نام نہیں لیا۔ قارئین کو بتانا چاہتا ہوں کہ مذکورہ چیف جسٹس کا نام سید سجاد علی شاہ ہے۔

1999ء میں مجھے ریٹائر چیف جسٹس سید سجاد علی شاہ کی یادداشتیں ریکارڈ کرنے کا موقع ملا جو کتابی شکل میں ’’سچ کیا ہے؟‘‘ کے نام سے شائع ہوئیں۔ ریٹائرمنٹ کے بعد سجاد علی شاہ صاحب کی مستقل رہائش کراچی میں تھی، اس لیے مجھے کراچی جانا پڑا۔ میں 9 مارچ 1999ء کو کراچی روانہ ہوا۔ یہ بات خوش آئند تھی کہ ان کا ڈرائینگ روم قرآنی آیات کے کتبوں سے مزین تھا۔

جسٹس سجاد علی شاہ صاحب صبح 11 بجے سے شام سات بجے تک مسلسل میرے سوالات کے جوابات دیتے رہے۔ جسٹس صاحب اپنی اہلیہ، اولاد اور دوست احباب سے سندھی میں گفتگو کرتے تھے۔ دوپہر کا کھانا ان کے ہمراہ کھانے کی سعادت حاصل ہوئی۔ دیگر ڈشوں کے علاوہ مچھلی ایک خاص ڈش تھی، جس کے کھانے کو جسٹس صاحب بار بار اصرار کرتے رہے۔

واقعی مچھلی انتہائی لذیذ تلی ہوئی تھی۔ لنچ کے علاوہ سارا دن چائے اور دیگر لوازمات کا دور بھی چلتا رہا۔ وقفے وقفے سے وہ ملازم کو آواز دیتے اور کہتے ’’بابا کوئی چائے وائے لاؤ ناں۔ مہمان آئے ہوئے ہیں‘‘ ملازم جوان تھا۔ شاید سندھیوں میں رواج ہے کہ وہ ملازم کو ’’بابا‘‘ کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔

انٹرویو کے اختتام پر میں نے جسٹس صاحب سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ کتاب میں آپ کی فیملی کی رائے بھی شامل کرنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے اپنی اہلیہ، بیٹی، بیٹا، نواسا اور نواسی کو کمرے میں بلا لیا۔ میں نے جسٹس سجاد علی شاہ صاحب کے بارے میں اہل خانہ کی رائے بھی ریکارڈ کی۔ ایک موقع پر جسٹس صاحب نے کہا کہ مجھے نوجوان شاعر احمد فراز کا کلام پسند ہے۔ احمد فراز کے ساتھ ’’نوجوان‘‘ لفظ سن کر قہقہہ پڑتا ہے۔

جسٹس صاحب نے پوچھا کیا میں کوئی غلط بات کہہ گیا ہوں؟ انکی اہلیہ نے کہا کہ احمد فراز کو ’’نوجوان‘‘ کہنے پر اپنی ہنسی ضبط نہ کر سکی۔ جسٹس صاحب نے جواب میں کہا۔ میں نے احمد فراز کا کلام پڑھ کے اندازہ کیا کہ وہ نوجوان ہوںگے۔ جسٹس سجاد علی شاہ نے ایک بیان میں کہا تھا کہ رفیق تارڑ، سیف الرحمن، شہباز شریف اور کیپٹن صفدر ججوں سے انکے گھروں پر جا کر ملاقاتیں کرتے تھے۔

اس بیان کے بارے میں، میں نے جسٹس سجاد علی شاہ سے پوچھا تو ان کا جواب تھا یہ باتیں اخبارات میں چھپ چکی ہیں کہ کون کون، کس کس جج سے ملا۔ گورنر اور وزیراعلیٰ کے جہاز کہاں کہاں جاتے تھے۔ لوگوں کو سب علم ہے۔ کراچی کے قصر ناز میں کون کون آتا تھا۔ لیکن کچھ باتیں ایسی ہیں جو بیان نہیں کی جا سکتیں۔ کیا کچھ ہوا، کیسے ہوا، سب کو علم ہے۔

جب اخبارات میں سب کچھ شائع ہوا تو انھوں نے تردید کیوں نہ کی کہ ہم فلاں فلاں ججوں سے نہیں ملے تھے۔ جہاز میں جو سفر کرتا ہے۔ مسافروں کے نام درج ہوتے ہیں۔ کوئٹہ میں مغرب کے بعد جہاز لینڈ نہیں کرتا پھر انکے جہاز مغرب کے بعد کوئٹہ میں کیوں اور کیسے لینڈ کرتے رہے۔ آپ کیا سمجھتے ہیںکہ مجھے علم نہیں کہ میرے جج صاحبان کیا کررہے ہیں اور کن کن شخصیات سے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔

سید سجاد علی شاہ کے نواز شریف کے ساتھ اختلافات کا آغاز 1993ء میں ہوا۔ اس وقت چیف جسٹس نسیم حسن شاہ کی سربراہی میں فل بنچ نے صدارتی اقدام کو غیر قانونی قرار دیا۔ تب تمام جج ایک طرف اورسید سجاد علی شاہ دوسری طرف تھے۔ جسٹس سجاد صاحب کا موقف تھا کہ اس کیس میں غلطی کی گئی ہے اور مواد کو پرکھنے کا وہی پیمانہ استعمال نہیں کیا گیا تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ سندھ کے دو وزراء اعظم آرٹیکل 582-B کی وجہ سے قربان کر دئیے گئے لیکن جب پنجاب سے وزیراعظم کی باری آئی تو معاملہ الٹ گیا۔

غیر متنازع کارروائی کے شروع ہی میں یہ تاثرات دئیے گئے کہ عدالت کا فیصلہ ایسا ہو گا جو قوم کو خوش کریگا۔ ابھی یہ وقت نہیں آیا کہ قوم کو کیا چیز خوش کریگی۔ کیا قانون کے عین مطابق ہو گا یا نہیں۔ میری رائے میں عدالت کا فیصلہ قانون کے عین مطابق ہونا چاہیے نہ کہ عوام کو خوش کرنے کیلئے۔ میں نے فیصلہ لکھ دیا ہے تا کہ ریکارڈ سیدھا ہو جائے۔ میری رائے میں یہ Fit کیس ہے جس میں اسی نتیجے کا اعلان کیا جانا چاہیے تھا جیسا کہ پہلے طارق رحیم کے کیس میں ہوا تھا۔ اس لیے میں اس درخواست کو Dismiss کرتا ہوں۔

مارچ 1999 ء کو میں نے جسٹس (ر) سجاد علی شاہ سے سوال کیا تھا کہ کونسا سیاست دان آپکے خیال میں بہتر ہے؟ ان کا جواب تھا۔ عمران خان بہت اچھا ہے۔ مجھے ان سے کافی امیدیں ہیں۔ سپریم کورٹ پر حملہ کے بارے میں جسٹس سجاد علی شاہ کا کہنا تھا کہ اس میں مسلم لیگی وزرا شامل تھے۔ سپریم کورٹ پر حملے کا جب واقع ہوا، میں کورٹ میں موجود تھا اور اس کی فلم موجود ہے، جس میں تمام وزرا موجود تھے جنھیں نوٹس تک جاری نہیں کیے گئے۔ جبکہ یہ فلم بی بی سی اور سی این این سے بھی ٹیلی کاسٹ کی گئی تھی۔

سابق صدر فاروق لغاری نے بھی سپریم کورٹ میں درخواست دی تھی کہ وہ اپنا بیان ریکارڈ کرانا چاہتے ہیں کہ اس واقعے کا اصل محرک کون ہے؟ لیکن سپریم کورٹ نے اجازت نہیں دی۔ اس فیصلے پر عوام خوش نہیں۔ ادارے اپنی حفاظت خود کیا کرتے ہیں”۔

Source

Leave A Reply

Your email address will not be published.