”نیب کے دفتر میں شہباز شریف کو دیکھتے ہی فواد حسن فواد رو پڑے اور کہنے لگے ۔۔۔“معروف صحافی نے انتہائی حیران کن انکشاف کردیا

ڈی جی نیب لاہور کے دفتر میں جب سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور سابق وزیراعظم کے پرنسپل سیکریٹری فواد حسن فواد کی ملاقات کرائی گئی تو اس موقع پر فواد حسن فواد ہچکیاں لے کر زار و قطار رو رہے تھے۔معروف صحافی اعزاز سیدنے مقامی ویب سائٹ پر شائع ہونے والے اپنے کالم میں لکھا کہ 20اگست 2018کو جب ڈی جی نیب لاہور کے دفتر میں شہباز شریف اور فواد حسن فواد کو براﺅن رنگ کے بڑے بڑے صوفوں پرآمنے سامنے بٹھا یا گیا تھا۔تفتیش کے دوران فواد حسن فواد اپنے ہر کام کا ذمہ داری سابق وزیر اعلیٰ پنجاب پر ڈالتے تھے ،اس لیے 20اگست کو جب شہباز شریف نیب لاہور آئے تو انکا فواد سے آمنا سامنا کرا یا جا رہا تھا۔

جب فواد کمرے میں داخل ہوئے تو شہباز بیٹھے ڈی جی لاہور سے گفتگو کررہے تھے۔ انہوں نے شہباز شریف کو دیکھتے ہی رونا شروع کردیا اورشہبازشریف انہیں تسلیاں دینے لگے۔شہبازشریف بولے، آپ فکر نہ کریں ، اسطرح برے دن آجاتے ہیں۔ فواد بولے ، نہیں سر میں جو کچھ بھی کرتا رہا وہ آپکے کہنے پر کرتا رہا۔ شہباز شریف نے پھر فواد کو چپ کرانے کی کوشش کی اور کہا کہ آپ پریشان مت ہوں۔ اس پر فواد بچوں کی طرح روتے ہوئے بولے ، ” سر انہیں کلئیر کریں ، میں جو کچھ کرتا رہا آپ کی ہدایت پر کرتا رہا،”۔ شہباز شریف نے فوری کہا،” بالکل آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں "۔ پتہ نہیں شہباز فواد کو چپ کرا رہے تھے یا فی الحال اس عجیب و غریب صورتحال سے نکلنا چاہتے تھے مگر نیب کے تفتیشی افسر نے اس بات کا نوٹس لے لیا۔یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ فواد کا یہ بیان کسی وعدہ معاف گواہ کا بیان نہیں تھا بلکہ ایک زیر حراست ملزم کا بیان تھا۔ جب فواد اپنے آنسوپونچھ رہے تھے تو شہباز شریف نے نیب ٹیم کو اشارہ کیا جس پرنیب ٹیم انہیں وہاں سے لے کر چلی گئی۔شہباز شریف واپس چلے گئے۔ مگر وہ واضع طور پر پریشان تھے اور شائد یہی وہ وجہ تھی کہ وہ اپنے بھائی نوازشریف کو بھی سمجھاتے کہ "زرا ہتھ ہولا رکھیں ، آپ پے تو جوآئی آئی ہمیں بھی لپیٹ لیا جائے گا،”۔

جب شہبازشریف کو طلب کرنے کا سمن جاری ہوا تو وقت ملک میں صرفایک دوطاقتور آدمی ہی جانتے تھے کہ دراصل یہ طلبی نہیں بلکہ گرفتاری کا بلاوہ ہے کیونکہ چیرمین نیب اپنے دورہ لاہور کے دوران ان کی گرفتاری کے وارنٹس خاموشی سے دستخط کرآئے تھے۔شہباز شریف جب مقررہ ۵ اکتوبر کو کھدر کی قمیض اور پیلے رنگ کی پینٹ زیب تن کیے نیب آئے تو انہیں ڈی جی نیب شہزاد سلیم نے چائے پیش کی۔ ابھی شہباز چائے کی چسکیاں لے ہی رہے تھے کہ انہیں بتایا گیا کہ آج انہیں گرفتار کرلیا جائے گا۔ شہباز شریف نے یہ سنتے ہی چائے کی پیالی میز پر رکھ دی اور حیرانگی کا اظہار کیا۔ جس پر شہزاد سلیم نے انہیں کہا کہ جناب گرفتاری اپنی جگہ چائے اپنی جگہ ، آپ چائے پیئں۔ شہباز نے دیوار پرلگی قائد اعظم کی تصویر دیکھی اور بولے۔۔ قائد اعظم کے پاکستان کا کیا بنے گا؟ اور پھر خاموش ہوگئے۔۔ خیر موقع پر موجود نیب ٹیم نے انہیں لاک اپ میں بھیج دیا۔ جہاں پہلے آدھے گھنٹے تک شہبازشریف داہنے ہاتھ سے سر کو پکڑے کرسی پر بیٹھے ٹانگین بستر پررکھ کر بے سدھ سوچتے رہے اور پھرنارمل ہوگئے۔

ٹھیک دوروز بعد اتواز کی شام نوازشریف اپنے زیرحراست بھائی سے ملنے نیب لاہور دفتر آئے۔ ان کے ہمراہ شہباز شریف کی اہلیہ نصرت شہبازاوران کے بیٹے حمزہ اور سلیمان بھی تھے۔دونوں بھائیوں میں بڑی جذباتی ملاقات ہوئی۔ شہبازشریف نے بیٹھتے ہی نیب کے تفتیشیافسران کی شکایت شروع کردی۔ بولے ، ” تفتیشی تو ایک ٹھینگنا ہے اسے سوال کرنا بھی نہیں آتا۔” نوازشریف اور شہباز دیگر کے ساتھ انہی صوفوں پر براجمان تھے جہاں بیٹھ کر اگست میں فواد حسن فواد نے سسکیاں لیتے ہوئَے، شہباز سے اپنے اقدامات کی توثیق کروائی تھی۔حیران کن طور پر ملاقات میں ڈی جی نیب شہزاد سلیم بھی اپنی کرسی پر بیٹھے تھے۔ اچانک نوازشریف ان سے مخاطب ہوئے،”شہزاد صاحب آپ کو خدا نے بڑا عہدہ دیا ہے ، آپ انصاف کریں کیونکہ آپ نے خدا کو بھی جواب دینا ہے”۔ اس پر شہزاد سلیم نے نوازشریف کو فواد حسن فواد کے ہی نہیں بلکہ اسی کیس میں گرفتار کیے گئے احد چیمہ کے بارے بھی تفصیلی بریفنگ دے ڈالی اور نوازشریف سے سوال کیا کہ آپ بتائیں کہ اس قدرمتحرک وزیراعلی خاص افسران کی طرف سے مبینہ لین دین سے کیسے بے خبر رہا؟ اس پر نوازشریف نے اپنا خیال ظاہر کیا اور کچھ دیر میں ملاقات ختم ہوگئی۔ ملاقات میں نواز اور شہباز کی قربت دیدنی تھی۔

Source

Leave A Reply

Your email address will not be published.