’شادی کے 6 سال بعد بھی میں کنواری تھی کیونکہ ہر مرتبہ۔۔۔‘ پاکستانی لڑکی نے وہ بات بتادی جو تمام شادی شدہ لڑکے لڑکیوں کو ضرور معلوم ہونی چاہیے

ہمارے معاشرے میں جنسی موضوع پر کھلے عام بات کرنا سخت معیوب سمجھا جاتا ہے، مگر اس رویے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ جنسی مسائل اور بیماریوں کے بارے میں بھی بات نہیں کی جاتی۔ نتیجہ یہ ہے کہ بعض ایسے مسائل جو خالصتاً میڈیکل نوعیت کے ہوتے ہیں اُن پر شرم و حیا کے نام پر پردہ ڈال دیا جاتا ہے اور لوگ خاموشی سے برسوں تکلیف سہتے رہتے ہیں۔ یہ مسائل کس قدر پیچیدہ اور تکلیف دہ ہو سکتے ہیں، اس کا اندازہ آپ ویب سائٹ Dawn.comپر ایک خاتون کی جانب سے شئیر کی گئی اُس کی اپنی زندگی کی کہانی سے لگا سکتے ہیں۔ یہ خاتون لکھتی ہیں:

لوگ ہمیشہ ہم سے پوچھتے تھے کہ ہمارے بچے کیوں نہیں ہیں، مگر شاید ان میں سے کسی کے ذہن میں کبھی یہ نہیں آیا ہوگا کہ ہم نے شادی ہو جانے کے باوجود کبھی ازدواجی تعلق ہی استوار نہیں کیا تھا۔ میری پیدائش پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں ہوئی۔ جب میرا نکاح ہوا تو میری عمر 18 سال تھی جبکہ رخصتی دو سال بعد 2008ءمیں ہوئی۔ رخصتی کے وقت میری عمر 20 سال اور میرے خاوند کی عمر 25 سال تھی۔

میرے خاوند متحدہ عرب امارات میں ملازمت کررہے تھے۔ ہم نے ایک ماہ اکٹھے گزارا جس کے بعد وہ واپس چلے گئے، لیکن میں اب بھی کنواری تھی۔ دراصل ہم نے پہلی بار ازدواجی فرائض کی ادائیگی کی کوشش کی تو میرے لئے تکلیف ناقابل برداشت تھی اور ہم نے اسے موخر کرنے کا فیصلہ کیا۔ بعدازاں جب بھی کوشش کی یہی ہوا اور یوں ایک ماہ گزر گیا۔

چند ماہ بعد وہ واپس آئے لیکن ہماری صورتحال جوں کی توں رہی۔ بظاہر ہماری شادی بالکل نارمل تھی لیکن دو سال گزرنے کے بعد بھی میں کنواری تھی۔ اب ہر کو ئی باتیں کرنے لگا کہ ہمارے بچے کیوں نہیں ہورہے اور کچھ نے تو مجھے بانجھ بھی قرار دینا شروع کردیا۔ سسرال کے دباؤ پر میں نے ہسپتالوں کے چکر لگانے شروع کردئیے لیکن شرم کے باعث میں کبھی ڈاکٹر کو یہ نہ بتاسکی کہ ابھی تک ہمارے درمیان جسمانی تعلق ہی استوار نہیں ہوا تھا۔ اس دوران میرے سسرال والے مجھے پیروں فقیروں کے پاس بھی لیجانے لگے۔ کوئی کہتا مجھ پر جن کا سایہ ہے تو کوئی کہتا کسی نے جادو ٹونہ کروا رکھا ہے۔

بالآخر ہمت کر کے میں نے ایک گائناکولوجسٹ کو حقیقت بتائی تو وہ کافی حیران ہوئی۔ اس نے بتایا کہ کوئی مسئلہ نہیں ہے بس میں بلاوجہ پریشان اور خوفزدہ ہو جاتی ہوں جس کی وجہ سے غیر معمولی تکلیف کا احساس ہوتا ہے۔ اگرچہ ڈاکٹر یہ کہہ کر مجھے رخصت کر دیتی تھیں مگر میرے لئے ازدواجی فرائض کی ادائیگی بالکل ناممکن تھی۔ آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ ایک گائنا کولوجسٹ نے تو یہ بھی کہا کہ اگر میں تمہاری ماں ہوتی تو تمہیں دو تھپڑ مارتی۔

شادی کے چھ سال بعد مَیں دبئی منتقل ہوگئی، اور وہاں ایک بار پھر ڈاکٹروں سے رابطے کا سلسلہ شروع کیا۔ تھمبے کلینک کی ڈاکٹر ارچنا گپتا نے پہلی بار میرے اندرونی الٹراساﺅنڈ کئے اور اس بات کا پتہ چلایا کہ میں ’ہائپر ٹروفیڈ ہائمن‘ نامی مسئلے کا شکار تھی، یعنی میرا پردہ بکارت غیر معمولی طور پر موٹا تھا جس کے باعث میرے لئے ازدواجی فرائض کی ادائیگی کی کوشش بے حد تک تکلیف دہ ثابت ہوتی تھی۔ اس مسئلے کا حل ایک معمولی سا آپریشن تھا جو صرف 20 منٹ میں ہو سکتا تھا۔

میرا آپریشن کیا گیا، اور اسی ماہ میں حاملہ ہوگئی۔ اب میں دو بچوں کی ماں ہوں اور اولاد جیسی نعمت کے سبب میری زندگی خوشیوں سے بھر گئی ہے ۔ میں اس کہانی سے آگاہی پھیلانا چاہتی ہوں کہ بعض اوقات میڈیکل نوعیت کے مسائل ہوتے ہیں لیکن لاعلمی کے سبب ہم انہیں نجانے کیا رنگ دے دیتے ہیں اور کیسی کیسی باتیں کی جاتی ہیں۔

میں خوش قسمتی تھی کہ میرے شوہر مجھ سے بہت محبت کرتے تھے اور چھ سال ہم نے جسمانی تعلق استوار کئے بغیر گزار لئے۔ اگر ہمیں اس مسئلے کی اصل نوعیت کا علم ہوتا، یا کسی ڈاکٹر نے ہی اسے سمجھنے کے لئے سنجیدگی دکھائی ہوتی، تو ہمیں چھ سال تک اولاد سے محرومی کا دکھ نہ سہنا پڑتا۔

Source

Leave A Reply

Your email address will not be published.