پھر نہ کہنا تبدیلی نہیں آئی! -ارشاد بھٹی

irshad bhatti

پُرانی تے اصلی تحریک انصاف کا جاگنا تھا یا دو نہیں ایک پاکستان والوں کے ضمیروں کا جاگنا، کسی کو این آر او نہیں دوں گا، نو ڈیل، ڈھیل، مک مکا کے بیانیے کو زندہ رکھنے کی آرزو تھی یا سیاسی طور پر لَت (ٹانگ) اوپر رکھنے کی خواہش، سلمان شہباز کے اپنے والدکی تصویر اور ’گیم چینجر‘ والے ٹویٹ نے صورتحال خراب کی یا قومی اسمبلی میں خواجہ آصف کی اُس تقریر نے ماحول بگاڑا جس میں وہ حکومت پر کچھ یوں گرجے، برسے ’’جو کچھ ہمیں پتا وہ تمہیں پتا نہیں، تم پر عنقریب چھت گرنے والی، ہم جب چاہیں گے انتخابات ہوجائیں گے‘‘۔

ٹونٹی ٹونٹی کھیلتے اس میڈیا کا خوف تھا جو ہلکی ڈھولکی پر یوں باریک بے عزتی فرما رہا تھا کہ ’’عمران خان آپ نے تو جیل سے اے سی اتروانا تھا، آپ کہاں ای سی ایل سے نام نکلوانے چل پڑے‘‘ یا پھراپنے ووٹرز، سپورٹرز کی ناراضی کا ڈر تھا، وہ ووٹرز، سپورٹرز جو یہ یقین کئے بیٹھے کہ کپتان چوروں، ڈاکوؤں، گاڈ فادروں کیخلاف ڈٹا ہوا، کسی کو این آر او نہیں دے رہا، کوئی ایک وجہ تھی یا یہ سب وجوہات، دیکھتے ہی دیکھتے صورتحال بدلی اور ایسی بدلی کہ نواز شریف جارہے، جہاز تیار کھڑا، ٹکٹیں بک ہو گئیں، نواز شریف کو سفر کرنے کیلئے اسٹرائیڈ دیدیئے گئے اور پھر ای سی ایل معاملہ نیب، وزارت داخلہ میں لٹکنا، پھر ای سی ایل ذیلی کمیٹی میں پھنسنا اور پھر سیکورٹی بانڈ، گارنٹی، جو کچھ ہوا، ہو رہا، وہ آپ کے سامنے، میرا یہ ماننا یہ وقتی delay، بالآخر نواز شریف نے لندن چلے ہی جانا کیونکہ یہ بااختیار، طاقتور کا ملک۔

ویسے حالات کتنی جلدی بدل جاتے ہیں، کل پرویز مشرف پر غداری کیس، وہ راولپنڈی اسپتال میں لیٹے ہوئے، ان کا نام ای سی ایل پر، باتیں ہورہی تھیں کہ پرویز مشرف کی طبیعت خراب، انہیں علاج کیلئے باہر جانا، تب لیگی شعلہ بیانیاں عروج پر، مریم نواز نے یوں طعنہ مارا ’’ہم وہ نہیں کہ کمر درد کا بہانہ بنا کر عدالت آتے ہوئے گاڑی اسپتال کی طرف موڑ لیں‘‘۔

سعد رفیق بولے ’’پرویز مشرف بھگوڑا، ڈرامے کر رہا، اگر اس کی بات مان لی جائے کہ انجیو گرافی کیلئے باہر جانا تو بتائیں پاکستان کی جیلوں میں جتنے لوگ دل کے مریض، کیا ان سب کو باہر بھجوا دیا جائے، یہ پرویز مشرف انوکھا لاڈلا نہیں‘‘،

پرویز رشید نے کہا ’’پاکستان کے قانون میں ایسی کوئی گنجائش نہیں کہ ملزم علاج کیلئے باہر چلا جائے، کیا یہاں اسپتال اور ڈاکٹر نہیں ہیں‘‘، احسن اقبال نے فرمایا ’’جنرل مشرف کی ٹیم اور ان کے وکلا ملک میں بحران پیدا کرنا چاہ رہے، یہ سازشی، پاکستان اس طرح کی سازشوں کا متحمل نہیں ہو سکتا، اگر پرویز مشرف عدالتوں کا سامنا کئے بنا ملک سے چلے گئے تو میں سیاست چھوڑ دوں گا‘‘،

خواجہ آصف کہنے لگے ’’پرویز مشرف چھپا بیٹھا، ترلے، منتیں کررہا مینوں باہر جان دیو‘‘ پھر وہ دن بھی آیا کہ جب ان سب جانبازوں کے ہوتے ہوئے انہی کی حکومت نے پرویز مشرف کا نام ای سی ایل سے نکالا اور وہ علاج کے بہانے دبئی جا پہنچے، جہاں چند دن بعد وہ ایک تقریب میں ’میں شکر ونڈاں رے‘ پر ڈانس کرتے پائے گئے، ہاں آج کل وہ واقعی بیمار، چلنا پھرنا مشکل، اللہ انہیں بھی صحت دے۔

یہ تو وہ لیگی تھے جو کل ملزم پرویز مشرف کے باہر جاکر علاج کرانے کی مخالفتیں اور آج مجرم نواز شریف کے باہر جا کر علاج کرانے کی حمایتیں فرمارہے، اب ملاحظہ ہو، حکومتی ظاہرو باطن کا ایک ٹریلر، چند دن پہلے ایک ٹی وی پروگرام میں وہ وزیر صاحب جو انسانی وطبی بنیادوں پر میاں صاحب کو باہر بھجوانے کے حق میں، پروگرام کے وقفے میں کہنے لگے ’’یہ کیسا مریض ہے جو ہر بار تشویش ناک حالت میں اسپتال سے گھر منتقل ہو جاتا ہے‘‘۔

میں نے بات سنی اَن سنی کردی تو میرے کان کے قریب منہ لاکر زیر لب مسکراتے ہوئے وزیر بولے ’’ویسے اس پر بات ہونی چاہئے کہ ’میں مرجاؤں گا لیکن باہر نہیں جاؤں گا ‘سے لیکر ’میں باہر نہیں جاؤں گا تو مرجاؤں گا‘ کا سفر طے کرنے والے نواز شریف کے حمایتی لندن جا کر یہ کہیں گے کہ اگر میاں صاحب کو لندن میں کچھ ہوا تو کیا اس کا ذمہ دار برطانیہ کا وزیراعظم بورس جانسن ہوگا‘‘، میں نے کہا بھائی جان آپ یہ سب آن ایئر کہہ دیں، کانوں کو ہاتھ لگا کر بولا ’’توبہ کرو، سب میرے پیچھے پڑ جائیں گے‘‘، یہ کہہ کر اس نے سامنے میز پر پڑا اپنا موبائل فون اٹھایا اور نقلی نقلی مصروف ہوگیا۔

ایک طرف نواز شریف بیماری، دوسری طرف مولانا کا شو جاری، آزادی مارچ، دھرنے، پلان اے کے بعد بات پلان بی تک پہنچی ہوئی، کشمیر بیچ دیا گیا، اسرائیل کو تسلیم کیا جارہا، یہودی، قادیانی ایجنٹ، اسلام، ناموسِ رسالت خطرے میں، مولانا یہ سب جھوٹ بول چکے، میں 14اگست نہیں مناؤں گا، ہم وزیراعظم کو گرفتار کر سکتے ہیں، دنیا عمران خان سے معاہدے نہ کرے، عمران خان کے آرڈر نہ مانے جائیں، پاکستان کو فارغ کرو، مولانا یہ سب فرما چکے،

مولانا فرسٹریشن، ڈپریشن کا شکار، خود مان چکے میں بند گلی میں، دیوار سے لگ چکا، پلان بی، لاک ڈاؤن، یہ تو کسی صورت قبول نہیں، صورتحال کیا بنتی ہے، وہ بھی دیکھ لیتے ہیں لیکن اسی رولے رپّے میں کرتارپور راہداری کا افتتاح ہوگیا، ویسے 9نومبر کیا تاریخ ساز دن تھا، اقبال ڈے، کرتارپور راہداری افتتاح اور بھارتی سپریم کورٹ کا بابری مسجد کی جگہ مندر کی تعمیر کا فیصلہ، 9نومبر کو بھارت ہارا، پاکستان جیت گیا، ویسے کرتارپور معاملے پر مولانا نے کیا کمال سیاست فرمائی، بولے، قائد کے پاکستان پر یہ وقت، اقبال ڈے پر کرتارپور راہداری کا افتتاح ہورہا، مولانا جی کے منہ سے علامہ اقبال، قائداعظم کا نام، شکرالحمدللہ مولانا جی کو بھی بالآخر قائداعظم، علامہ اقبال کی اہمیت کا احساس ہوا۔

یہ دکھ اپنی جگہ کہ مولانا شو، نواز شریف بیماری کی وجہ سے مقبوضہ کشمیر سمیت سب جینوئن ایشوز نظروں سے اوجھل ہوئے، باقی چھوڑیں، مہنگائی، بیروزگاری، معیشت گورننس مطلب حکومتی کارکردگی سے فوکس ہٹا، عام حالات ہوتے تو وزیر خزانہ حفیظ شیخ کا یہ تاریخی فرمان گھر گھر کی کہانی ہوتی کہ ’’ٹماٹر 250روپے فی کلو نہیں 17روپے کلو‘‘،

اندازہ کریں یہ وزیرخزانہ فرما رہے بلکہ زخموں پر نمک چھڑک رہے، ہمارے بھی کیا نصیب، ایک طرف مولانا شو، نواز بیماری، دوسری طرف یہ فن کار اور یہ فنکاری، ایسے ہی جیسے آگے کنواں، پیچھے کھائی، پھر نہ کہنا تبدیلی نہیں آئی۔

Source: Jung News

Read Urdu column Phir na kehna tabdeeli nahin i By Irshad Bhatti

Leave A Reply

Your email address will not be published.