وینٹی لیٹر سے وینٹی لیٹر تک ! – ارشاد بھٹی

irshad bhatti

ڈاکٹر بولا ،بلڈ پریشر ، شوگر ،آکسیجن خطرنا ک حد تک کم ، اگر ہم نے انہیں وینٹی لیٹر پر نہ ڈالا تو عین ممکن ،چند منٹوں کے بعد یہ Expireہوجائیں ، آپ ان کے خاوند ، وینٹی لیٹر لگانے کا فیصلہ آپ نے کرنا ، جو فیصلہ بھی کرنا ہے جلدی کریں ، ہمارے پاس وقت کم اورہاں اگرآپ کی جگہ میں ہوتا ،میری اہلیہ کی حالت یہ ہوتی تومیں ایک منٹ نہ لگاتا اسے وینٹی لیٹر پر ڈالنے میں ، میںنے ایک نظر بیگم پر ڈالی،تین نرسیں اس کے ہاتھ پاؤں جکڑے کھڑی تھیں مگر بیگم کی بے چینی ایسی ، نیم بے ہوشی کے عالم میں وہ اتنی طاقت سے خود کو چھڑوانے کی کوشش کر رہی تھی کہ نرسوں کا سانس پھولا ہوا، میں نے ڈاکٹروں کی طرف دیکھا، سب بیگم کے اِردگرد کھڑے کبھی اسے کبھی مجھے دیکھ رہے، میں نے ایک کونے میں دم سادھے کھڑے اپنے سب رشتے داروں کو دیکھا، سب بے یقینی کے عالم میں چپ کھڑے ، میں نے لمبی سانس لی ، بولنے کی کوشش کی، حلق سے آواز نہ نکلی ، میں پورا زور لگا کر بولا، ڈاکٹرصاحب آپ اسے وینٹی لیٹر پر ڈال دیں ،یہ سن کر ڈاکٹر بولا، آپ نے اچھا فیصلہ کیا ، اللہ فضل کرے گا،پلیز سب رشتے داروں کو باہر بھجوادیں ،اگر آپ رُکنا چاہتے ہیں تو رُک جائیں ، میں نے کہا ، نہیں ڈاکٹر صاحب میں یہ نہیں دیکھ سکتا ،آپ اپنا کام کریں ،یہ کہہ کر میں ایمرجنسی وارڈ سے نکل آیا۔

میں باہرآیا، شام کا اندھیرا گہر اہورہاتھا ،میں ایمرجنسی وارڈ کے دروازے کے ساتھ دیوار سے ٹیک لگا کر زمین پر بیٹھ گیا ، میرا دماغ ماؤف ،ایسا لگ رہا تھا جیسے میں کوئی خواب دیکھ رہا ،بھیانک خواب، میں نے دائیں طرف دیکھا،چند لوگ کھڑے نظر آئے، کچھ موبائل فونوں میں گم ،کچھ آپس میں سرگوشیوں میں باتیں کرتے ہوئے، میں نے اپنے بائیں طرف نظر دوڑائی ، اسپتال کے دو سیکورٹی گارڈ کھڑے مجھے گھوررہے ، میں نے سامنے دیکھا، دوڈاکٹر ہاتھوں میں چائے کے کپ پکڑے گپیں ماررہے ،اچانک میری نظر آسمان کی طرف اُٹھی، آنسو بہنے لگے ، میں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا، مجھے نہیں پتا میں کتنی دیر رویا، کب چپ ہوا ، وہاں کتنی دیر بیٹھا ، مجھے پتا تب چلا جب ایک ڈاکٹر نے آکر میرے کندھے پر ہاتھ رکھا، بازو سے پکڑ کر اُٹھایا، لا کر ویٹنگ روم میں بٹھایا،زبردستی پانی پلایا اور جب میری حالت قدرے بہتر ہوئی تو اس نے بتایا، وینٹی لیٹر لگا دیا ،لیکن بلڈ پریشر ابھی تک خطرناک حدتک ڈاؤن ، اوپرنہیں آرہا ،ہم کوشش کر رہے ، دعاکریں ،یہ کہہ کرو ہ ویٹنگ روم سے نکل گیا، اتنی دیر میں باقی سب رشتے دار بھی وہیں آگئے، اچانک مجھے یاد آیا، بیگم نے چند دعائیں میرے موبائل میں خاص طورپر ڈلوائی تھیں کہ جب کبھی کوئی مشکل ہو، بے بس ہوجاؤ ،دُکھ ،غم حاوی ہوجائیں ،روشنی کی کوئی کرن نہ رہے، مایوس ہونے لگو تو یہ دعائیں پڑھنا اور تب تک پڑھنا جب تک دلی،دماغی کیفیت بہتر نہ ہوجائے، میں نے جیب سے موبائل نکالا، دعائیں پڑھنا شروع کردیں، تقریباً آدھے گھنٹے بعد وہی ڈاکٹردوبارہ آیا، میر ے ساتھ بیٹھ کر بولا،الحمد للہ اب بلڈ پریشر کنٹرول میں ، آپ کی اہلیہ stable، ہم انہیں آئی سی یو میں شفٹ کرنے لگے ،آپ آجائیے ،میں ویٹنگ روم سے نکلا ،ایمرجنسی وارڈمیں گیا، بیگم بے سدھ لیٹی ہوئی ، منہ میں بڑا ساپائپ ، چہر ہ سوج چکا، آکسیجن سلنڈر ساتھ بیڈ پر، میں نے اسکا ماتھا چوما،نرسوں نے پہیوں والا بیڈ گھسیٹنا شروع کیااورہم آئی سی یو کی طرف چل پڑے ۔

آئی سی یو پہنچے،کمرہ نمبر9، چھوٹا شیشے کا کیبن ،بیگم کوتھوڑی ہی دیر میں رنگ برنگی تاروں کے ذریعے چھوٹی چھوٹی ٹی وی اسکرینوں سے جوڑ دیا گیا، آکسیجن بتاتی اسکرین ، دل کی دھڑکن دکھاتی اسکرین ، مسلسل بلڈپریشر بتاتی اسکرین ،دماغی کیفیت بتاتی اسکرین ، بائیں بازو پر برینولا ، بیک وقت دو ڈرپس لگی ہوئیں ، منہ میں پلاسٹک پائپ مطلب وینٹی لیٹر، 2قسم کے یورین بیگ ، موت جیسی خاموشی،جذبات سے عاری سپاٹ چہروں والا پیرا میڈیکل اسٹاف، سب کی نظریں مریض اور مریض سے جڑی ٹی وی اسکرینوں پر ، ماحول ایسا ، نہ بات کرنے کو دل چاہے نہ ٹی وی اسکرینوں سے نظر ہٹے، نہ دل وہاں رہنے کو کرے نہ دل وہاں سے جانے کو چاہے ،انسان کی کیا اوقات، انسان کتنا بے بس، یہ آئی سی یو میں پہلا قدم رکھتے ہی پتا چل جائے ، آئی سی یو ماحول کا اس بات سے اندازہ لگا لیں، ہمارے آنے کے بعد اگلے چوبیس گھنٹوں میں وہاں سے 7لاشیں نکلیں ۔

میں بیڈ کے ساتھ بیٹھا مسلسل بیگم کو دیکھ رہا تھا ، 22سالہ رفاقت پہلا موقع، میں سامنے بیٹھا اور بیگم خاموش، پہلی رات گزری، صدیوں پر محیط رات، دوسرا دن گزرا، قیامت خیز دن، شام کو آئی سی یو انچارج آیا، معائنہ کیا، بتایا سب کچھ کنٹرول میں ،اگر Recovery ایسے ہی رہی تو تین چاردن بعد ہم وینٹی لیٹر اتارنے کی کوشش کریں گے، آئی سی یو میں کیسے کیسے جاں گُسل لمحے نہ آئے، آکسیجن ،بلڈ پریشر ،دل کی دھڑکنوں کو ایک سطح سے اوپر نیچے نہ جانے دینے کی جدوجہد، گردوں، جگر، دماغ، چھاتی، پھیپھڑوں کی مسلسل نگرانی کی اذیت ،سی ٹی اسکین، ایم آئی آر، ایکسرے کرانے کے جھنجھٹ، روزانہ بھانت بھانت کے درجنوں ٹیسٹ، ان ٹیسٹوں کی رپورٹیں ،ان رپورٹوں سے پیداہوتی پریشانیاں، ان پریشانیوں سے نمٹنا، میں صبح سے عشاء تک بیگم کے ساتھ ہوتا، رات کو کبھی بیگم کا بھائی آجاتا،کبھی بیگم کی بہن، عشاء کے بعد میں بچوں کے پاس گھر آجاتا،مگر دل، دماغ آئی سی یو میں ہی اٹکا رہتا، میں روز صبح اُٹھتا، ایک روٹی بنواتا ،انڈے کا آملیٹ بنواکر اس روٹی میں ڈال کر رول بناتا، اسے جیب میں ڈالتا اوربیگم کے پاس پہنچ جاتا۔ (جاری ہے)

Source: Jung News

Read Urdu column Ventilator se Ventilator tak By Irshad Bhatti

Leave A Reply

Your email address will not be published.