ظالم کی کوئی قومیت نہیں ہوتی – حامد میر

hamid-mir

بلوچستان کی کچھ دُکھی مائیں، بہنیں اور بیٹیاں فریادی بن کر اسلام آباد آئیں تاکہ وزیراعظم عمران خان تک اُن کی آواز پہنچ سکے۔ افسوس کہ عمران خان کی حکومت کے کچھ وزیروں نے ان دُکھی مائوں، بہنوں اور بیٹیوں کی فریاد سننے کی بجائے ان کے سامنے پنجاب کی مظلومیت کا مقدمہ پیش کر دیا اور طعنہ دیا کہ بلوچستان کی مائیں تو پنجاب میں احتجاج کر سکتی ہیں کیونکہ یہاں کوئی ان کے شناختی کارڈ دیکھ کر انہیں گولی نہیں مارے گا لیکن پنجاب کی اُن مائوں کا کیا کریں جن کے بچوں کو بسوں سے نکال کر گولی مار دی جاتی ہے،

اس لئے بلوچستان میں پنجابیوں پر ظلم کی بھی مذمت کی جائے۔ ایک وزیر فواد چودھری نے بلوچستان میں پنجابیوں پر ظلم کی مذمت کی تو عمران خان کے ایک اتحادی رکنِ قومی اسمبلی شاہ زین بگٹی نے اُنہیں جواب میں کہا کہ پنجابی ہمارے بھائی ہیں لیکن آپ نفرت نہیں پھیلائو، آپ کے بیان سے غلط پیغام جا رہا ہے۔

قابلِ غور بات یہ تھی کہ لاپتہ افراد کے خاندانوں سے تعلق رکھنے والی بلوچ خواتین دراصل پاکستانی بن کر پاکستان کے دارالحکومت میں پاکستان کے وزیراعظم سے ملاقات کی خواہش لے کر آئی تھیں لیکن یہاں پر اُنہیں بلوچ اور پنجابی کے تنازعے میں اُلجھا دیا گیا۔ ایک ہفتہ قبل جب یہ خواتین اسلام آباد آئیں تو خاموشی سے اپنے لاپتہ پیاروں کی تصاویر ہاتھوں میں پکڑ کر نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے باہر بیٹھ گئیں لیکن پولیس نے اُنہیں فوراً اٹھ جانے کے لئے کہا۔

پولیس کے تنگ کرنے پر وائس آف بلوچ مسنگ پرسنز کے چیئرمین نصراللہ بلوچ اور بارہ سال سے لاپتہ ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی بیٹی سیمی بلوچ نے نیشنل پریس کلب کی انتظامیہ سے مدد مانگی۔ نیشنل پریس کلب والوں نے پولیس سے کہا کہ یہ عورتیں اور بچے بہت دور سے آئے ہیں، آپ ان کی کوئی مدد نہیں کر سکتے تو انہیں تنگ مت کریں۔

یوں ان دکھی عورتوں کو پریس کلب کے باہر اپنا کیمپ لگانے کی اجازت مل گئی۔ چھ دن تک یہ عورتیں پریس کلب کے باہر خاموشی سے بیٹھی رہیں۔ انہوں نے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی تک اپنی درخواست پہنچائی کہ ہمیں عمران خان سے ملوا دیں لیکن کوئی شنوائی نہ ہوئی تو چھٹے دن یہ پارلیمنٹ ہائوس کی طرف چل پڑیں۔

انہیں روکنے کے لئے پولیس نے پوری کوشش کی لیکن 2009سے لاپتہ ذاکر مجید بلوچ کی بوڑھی والدہ کو کوئی کیسے روک سکتا تھا جس کی زندگی میں ٹھوکروں کے سوا اب کچھ نہیں بچا۔ حسیبہ قنبرانی کو کوئی کیسے روکے جو اپنے لاپتہ بھائیوں کے غم میں ہر وقت آنسو بہاتی ہے۔

یہ عورتیں پولیس سے لڑتی بھڑتی ڈی چوک تک پہنچیں تو ہمارے حکمرانوں کو پنجاب کا مقدمہ یاد آ گیا۔ وہ یہ بھول گئے کہ ظالم کی کوئی نسل، مذہب اور قومیت نہیں ہوتی۔

ظالم تو صرف ظالم ہوتا ہے اور مظلوم صرف بلوچ، سندھی، پختون اور پنجابی نہیں ہوتا مظلوم صرف مظلوم ہوتا ہے۔ لاپتہ افراد صرف بلوچستان، سندھ اور خیبر پختونخوا میں نہیں بلکہ پنجاب میں بھی ہیں۔ آمنہ مسعود جنجوعہ کی مثال ہمارے سامنے ہے جو 2005سے اپنے خاوند مسعود جنجوعہ کی بازیابی کے لئے دھکے کھا رہی ہیں۔

تحریک انصاف کی حکومت کو لاپتہ افراد کا مسئلہ اب تک حل کر لینا چاہئے تھا۔ اس مسئلے کے حل نہ ہونے پر پہلے اختر مینگل نے عمران خان کی حمایت چھوڑی اب کچھ مزید اتحادی بھی ناراض نظر آ رہے ہیں۔

حکومت کے وزراء کو اپنے اپنے صوبے کا نہیں بلکہ پاکستان کا وزیر بن کر دکھانا چاہئے۔ چھوٹے صوبوں میں پنجاب پر تنقید کی جاتی ہے تو تنقید کا جواب تنقید سے دینے کی بجائے اُن وجوہات کو ختم کریں جن کی وجہ سے پنجاب پر تنقید ہوتی ہے۔ اگر چھوٹے صوبوں کے لوگ یہ کہنا شروع کر دیں کہ ہمارے اہم لیڈر پنجاب میں کیوں مارے جاتے ہیں؟

ہمارے لیڈروں کو پنجاب کی جیلوں میں کیوں بند کیا جاتا رہا، پنجاب کے لیڈروں کو دوسرے صوبوں میں کیوں بند نہیں کیا جاتا؟ پھر آپ کیا جواب دیں گے؟

کچھ دن پہلے میں مولانا گلزار احمد مظاہری کی جیل کہانی پڑھ رہا تھا جسے اُن کے برخوردار ڈاکٹر حسین احمد پراچہ نے مرتب کیا ہے۔ مولانا گلزار احمد مظاہری کا تعلق جماعت اسلامی سے تھا اور وہ مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کے قریبی ساتھی تھے۔ اس کتاب میں اُن کی جیل کی ڈائری شامل ہے اور یہ ڈائری بتاتی ہے کہ لائل پور (فیصل آباد) جیل میں اُن کے ساتھ عبدالصمد خان اچکزئی بھی قید تھے۔

یہ وہ زمانہ تھا جب عمران خان کے فیورٹ ڈکٹیٹر جنرل ایوب خان پاکستان کے حکمران تھے۔ موصوف نے جماعت اسلامی پر پابندی لگا کر اس کے پچاس سے زائد رہنمائوں کو جیل میں ڈال دیا۔ جیل میں عبدالصمد خان اچکزئی کی مولانا گلزار احمد مظاہری سے دوستی ہو گئی۔

دونوں آپس میں بیڈ منٹن کھیلتے ایک دوسرے کو کھانا کھلاتے اور اس مسئلے پر بھی بحث کرتے کہ امام ابو حنیفہؒ پشتون تھے یا نہیں؟ کتاب کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان میں پہلا مارشل لا لگا تو عبدالصمد اچکزئی سے شیخ مجیب الرحمان اور خان عبدالاغفار خان سے لے کر مولانا مودودی تک سب اس مارشل لا کے خلاف تھے اور پھر سب نے محترمہ فاطمہ جناحؒ کی حمایت بھی کی۔

کتاب میں بتایا گیا ہے کہ مولانا مودودی نے ایوب خان کے خلاف محترمہ فاطمہ جناحؒ کی بطور صدارتی امیدوار ان الفاظ میں حمایت کی ’’ایک طرف ایوب خان ہیں کہ جن میں ایک مرد ہونے کے علاوہ کوئی خوبی نہیں اور دوسری طرف محترمہ فاطمہ جناح ہیں کہ جن کے اندر عورت ہونے کے علاوہ کوئی خامی نہیں لہٰذا ان دو میں سے ہم محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت کریں گے‘‘۔

مولانا گلزار احمد مظاہری کی جیل کہانی پڑھتے ہوئے میں سوچتا رہا کہ عبدالصمد اچکزئی کو بلوچستان کی کسی جیل میں کیوں نہ رکھا گیا؟ بھٹو دور میں چوہدری ظہور الٰہی کو مچھ جیل بھیجا گیا تو گورنر اکبر بگٹی نے اُنہیں واپس پنجاب بھجوا دیا بعد میں اکبر بگٹی کو کوٹ لکھپت جیل لاہور میں قید کیا گیا۔ پھر ذوالفقار علی بھٹو کو راولپنڈی جیل میں پھانسی دی گئی۔ مشرف دور میں کچھ عرصے کے لئے نواز شریف کو کراچی میں رکھا گیا پھر پنجاب اور پھر جدہ پہنچا دیا گیا۔

آصف علی زرداری نے زیادہ وقت راولپنڈی اور لاہور کی جیلوں میں کیوں گزارا؟ فوجی ڈکٹیٹروں نے اپنا اقتدار قائم رکھنے کے لئے سیاستدانوں کو آپس میں لڑایا، سیاسی جماعتوں کو کمزور کیا اور صوبوں میں نفرت پھیلائی۔

نفرت کو نفرت سے نہیں صرف محبت سے ختم کیا جا سکتا ہے۔ ایک صوبے کے مظلوموں کو دوسرے صوبے کے مظلوموں کی حمایت کرنی ہو گی اور ظالم کو صرف ظالم کہنا ہو گا۔

قانون سب کے لئے برابر ہونا چاہئے۔ بلوچستان کے جج کے لئے وہی فیصلہ ہونا چاہئے جو پنجاب کے ججوں کے لئے ہوتا ہے۔ بلوچستان کے مظلوم کو بھی وہی توجہ ملنی چاہئے جو پنجاب کے مظلوم کو ملتی ہے۔ سب مظلوموں کے ساتھ ایک سا سلوک ہو گا تو قائداعظم کا پاکستان مضبوط ہو گا۔

Source: Jung News

Must Read Urdu Column Zalim ki koi Qomiat nahin hoti by Hamid Mir

Leave A Reply

Your email address will not be published.