ارشادنامہ ! – ارشاد بھٹی

irshad bhatti

آبائی گاؤں بٹالہ، پیدا ہوئے شملہ میں، 9بہن بھائی، 9سال کے تھے یتیم ہو گئے، یکے بعد دیگرے ماں، باپ فوت ہوئے، بچپن میں دہلی میں قائد ِاعظم، فاطمہ جناح سے ملاقات ہوئی، پاکستان بنا، خاندان کے ساتھ ہجرت کرکے کراچی آئے، کچھ عرصہ بعد کراچی سے لاہور منتقل ہوئے، چند دن لاہو ر میں بھائی کی فرنیچر کی دکان پر بیٹھے، مگر کچھ بننا چاہتے تھے، لہٰذا بھائی کی دکان پر جانا بند کرکے مسلم ماڈل اسکول میں داخلہ لے لیا، معاشی حالات خراب، اسکول چھوڑنے کی نوبت آگئی، لیکن ڈاکٹر محبوب الحق کے والد عبدالعزیز شیخ نے فیس معاف کی، مفت کتابیں ،کاپیاں ،یونیفارم دیا تو تعلیم جاری رکھ پائے، بل نہ دینے کی وجہ سے گھر کی بجلی کٹی تو سرکاری روشنی میں پڑھائی کی، کھانے پینے کا مسئلہ ہوا تو چھوٹی عمر میں ہی بچوں کو ٹیوشن پڑھانا شروع کردی، یہی نہیں ٹیوشن کے ساتھ ساتھ لاہور مال روڈ پر مصنوعی ٹانگیں ودیگر اعضاء لگانے والی دکان پر ملازمت کرلی، اسی دوران ریڈیو پاکستان پر بچوں کے پروگرام بھی کئے، گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ ،بس معجزہ ہی تھا ،بی اے کے بعد کتابوں کی دکان پر ریسپشنسٹ کی نوکری کی، قائد ِاعظم کی طرح وکیل بننا تھا، لہٰذا لا کالج میں داخلہ لیا، لاکیا، شروع میں دھکے کھانے کے ریکارڈ قائم کئے، بعد میں ہائیکورٹ ،سپریم کورٹ کے کامیاب وکیل ہوئے، ڈپٹی اٹارنی جنرل بنے، لاہور ہائیکورٹ کے جج، سیکرٹری سیکرٹری قانون، انصاف وپارلیمانی امور رہے، سپریم کورٹ کے جج، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بنے، قائم مقائم صدررہے، 3سال چیف الیکشن کمشنر رہے، آپ سمجھ ہی گئے ہوں گےکہ میں کس کی بات کررہا ہوں ،جی بالکل میں ارشاد حسن خان کی بات کر رہا ہوں، ایک یتیم ،سائیکل سواربچہ جو بنا کسی سفارش ،پرچی کے چیف جسٹس آف پاکستان بنا ،یہ ناقابل یقین کہانی، ان کی یادداشتوں کی کتاب ’ارشاد نامہ‘ میں ،میں نے یہ پڑھنا شروع کی توپہلی سانس میں ہی پڑھ گیا۔

ارشادحسن خان، جنہیں وکالت اتنی پسند، اپنی کتاب میں لکھیں ’’اگر مجھے میری جوانی لوٹا کر کہا جائے کہ تم چیف جسٹس آف پاکستان بنوگے، صدر پاکستان یا وکیل تو میں کہوں گا کہ میں وکیل بنوں گا کیونکہ قائدِاعظم وکیل ،علامہ اقبال وکیل‘‘جو اس بھلے وقتوں کے انسان جب صورتحال یہ تھی کہ یہ لاہورہائیکورٹ کے جج تھے ،انکی جنرل کے ایم عارف سے عزیزداری تھی ،شریف الدین پیرزادہ انہیں سیکرٹری قانون بنانا چاہتے تھے، جنرل کے ایم عارف صدر ضیا ء الحق کے چیف آف اسٹاف تھے، شریف الدین پیرزادہ کی تمام تر کوشش کے باوجود جنر ل کے ایم عارف نے انہیں صرف اس لئے سیکرٹری قانون نہ بننے دیا کہ کہیں یہ تاثر نہ جائے کہ عزیزداری کی وجہ سے انہیں سیکرٹری قانون بنادیا، جب کے ایم عارف وائس آرمی چیف بنے ،چیف آف اسٹاف نہ رہے تب یہ سیکرٹری قانون بنے، جو اس بھلے دور کے انسان جب صدر ضیاء الحق سے کسی بات پر اختلاف ہوا چھ ماہ صدر صاحب کی فائل دبائے رکھی ،دستخط نہ کئے لیکن یہ نہیں ہوا کہ چیف آف آرمی اسٹاف اور صدر ضیاء الحق نے مائنڈ کر کے انہیں عہدے سے ہٹا دیا ہو۔

’ارشادنامہ پڑھ کر پتا چلا کہ جونیجو پارلیمنٹ نے آٹھویں ترمیم منظور کی، مطلب 58ٹوبی کے تحت صدرمملکت کو حکومت گھر بھجوانے کااختیار دیا، یہی کتاب پڑھ کر پتا چلا کہ اچھے موڈ میں جالندھری پنجابی بولنے والے ضیاء الحق کو جب کسی پر غصہ آتا تو وہ زور دار قہقہہ مارتے اوربات دل میں رکھ لیتے، اگر انہیں فون کرکے ناراضی کا اظہار بھی کرناہوتا تو پہلے اسلام وعلیکم کہتے، مزاج پوچھتے ،پھر کلاس لیتے، سیکرٹریوں کو رخصت کرنے کا رپورچ تک آتے، وہ شریف الدین پیرزادہ کو استاد کہتے، اسی کتاب سے معلوم ہوا کہ بظاہر دھان پان سے نرم، دھیمے لہجے والے محمد خان جونیجو ایسے دلیر نکلے کہ ’’مارشل لا اور پارلیمنٹ ایک ساتھ نہیں چل سکتے ‘‘ والا بیان دیدیا، اسی کتاب میں شریف الدین پیرزادہ کے حکومت کو قانونی مشورے ،عزیز اے منشی کی اپنے کیرئیر کیلئے کوششیں، اس دور کی جوڈیشری، ان وقتوں کی بیوروکریسی اور اس زمانے کی حکومتی سازشوں کا پتا چلتا ہے، اسی کتاب میں جنر ل ضیاء الحق، غلام اسحق خان،بے نظیر بھٹو،پرویز مشرف، ایس ایم ظفر، اے کے بروہی، چیف جسٹس شمیم قادری ،جسٹس حلیم، جسٹس افضل چیمہ ،وسیم سجاد ،ناصراسلم زاہد سمیت بہت ساروں کی خوبیوں ،خامیوں کا پتا چلا،یہی کتاب پڑھ کر پتا چلا کہ ارشاد حسن سپریم کورٹ کے جج تھے مگر انہیں چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ بنا دیا گیا، اسی کتاب سے پتا چلا کہ جسٹس ارشاد حسن کو لاہور ہائیکورٹ کا چیف جسٹس بنانے کی بات کرتے ہوئے وزیراعظم بینظیر بھٹو نے بات یوں شروع کی’’ ارشاد صاحب آج کل لاہور ہائیکورٹ کے حالات اچھے نہیں، بعض وکلا بھری عدالت میں جج صاحبان کی بے عزتی کرتے ہیں، جب میرے والد پیش ہوئے تھے تب کسی وکیل کی جرأت نہیں تھی کہ چیف جسٹس مولوی مشتاق حسین کی عدالت میں اونچی آواز میں بولے بلکہ میرے والد کو بھی پوری طرح نہیں سناگیا‘‘اور اسی کتاب سے پتا چلا کہ بینظیر بھٹو کے جہانگیربدرکو جج بنانے کی بات دراصل مذاق تھی ،ہوا یوں کسی تقریب کے دوران بینظیر بھٹو نے پوچھا کہ جہانگیر بدر کہاں ہیں، انہیں بتایا گیا کہ وہ سپریم کورٹ گئے ہوئے ہیں ،اس پر بی بی نے مذاقاً کہا کیوں نہ انہیں سپریم کورٹ کا چیف جسٹس بنا دیا جائے ،یہ محض مذاق تھا سپریم کورٹ چھوڑیں وہ ہائیکورٹ کے جج بننے کی اہلیت پر پورا نہیں اترتے تھے، اسی کتاب میں جہاں وہ بتاتے ہیں کہ رفیق تارڑ نوٹوں کا بریف کیس لیکر ججز خریدنے کوئٹہ نہیں گئے تھے وہاں یہ بھی بتاتے ہیں کہ چیف جسٹس پاکستان کا حلف لینے سے پہلے صدر رفیق تارڑ کہنے لگے ’’ارشاد،اللہ کی شان دیکھو کہ مجھے آپ سے حلف لینا پڑ رہا ہے ‘‘۔

آپ جسٹس ارشاد حسن خان کے پرویز مشرف کو 3سال دینے پر اعتراض کر سکتے ہیں ،جسٹس سعید الزمان صدیقی کے انکار کے بعدان کے پی سی اوکے تحت حلف اُٹھانے پر اعتراض کر سکتے ہیں ،ان کی اس منطق کو رد کر سکتے ہیں کہ میں نے پی سی اوکے تحت حلف آزاد عدلیہ،فوج کو بیرکوں میں بھجوانے اور جمہوریت بچانے کیلئے لیا مگر یہ کتاب پڑھتے ہوئے آپ قدم قدم پر فضلِ خدا اور ایک یتیم سائیکل سوار کی محنت ،قابلیت کے قائل ہوجائیں گے ۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

Source: Jung News

Read Urdu column Irshaad Naama By Irshad Bhatti

Leave A Reply

Your email address will not be published.